تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:196) بلکہ کتاب المغازی میں اس کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ اور مدینہ کے درمیان جعرانہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئےتھے، آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ میں حاضر خدمت ہوا۔ آپ کے پاس ایک اَعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ وعدے کے مطابق مجھے کچھ دیتے کیوں نہیں؟ آپ ﷺ نے حوصلہ افزائی کے طور پر فرمایا: (أَبْشِرْ) ’’تیرے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا: مجھے خوشخبری نہیں بلکہ مال چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور غصے کی وجہ سے متغیر ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تو میری بشارت کو رد کردیا ہے تم دونوں (ابو موسیٰ اشعری ؓ اور بلال ؓ ) اسے قبول کر لو۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہم بسرو چشم قبول کرتے ہیں۔ پھر آپ نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس میں اپنے ہاتھ اور چہرہ دھویا اور کلی فرمائی۔ پھر آپ نےحضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا اور اپنے سینوں اور چہروں پر اسے چھڑکنے کا کہا اور آپ نے انھیں دوبارہ بشارت دی۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اتنے میں حضرت اُم سلمہ ؓ پردے کے پیچھے سے گویا ہوئیں کہ اپنی ماں کے لیے کچھ پانی بچا لینا۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ ؓ کے لیے کچھ پانی بچا کر رکھ لیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4328) یہ پس منظر ہم نے اس لیے بیان کیا ہے تاکہ بزعم خویش ’’تدبرقرآن‘‘ کے مدعی حضرات کی علمی بے بضاعتی کا پتہ چل جائے۔ ان کے سامنے صرف احادیث بخاری کا استخفاف ہے۔ چنانچہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں: ’’یہ زیر بحث روایت کا حصہ نہیں بلکہ روایت پر ایک اضافہ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث289/1) امام بخاری ؒ نے اس معلق (بےسند) روایت کو حدیث ابی جحیفہ کے بعد بیان فرمایا، وہ اس لیے نہیں کہ یہ روایت مذکورہ حدیث کا حصہ ہے بلکہ اسے ایک مستقل حدیث کے طور پر بیان فرمایا۔ لیکن اصلاحی صاحب کو بخاری کی اصلاح مقصود ہے، خواہ غیر اصلاحی طریقے سے ہو۔
2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستعمل پانی دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، جب اس کا پینا درست ہے تو آٹا گوندھنے اور کھانا پکانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف برکت کی خاطر دست مبارک اور چہرہ اقدس کو اس پیالے میں دھویا اور برکت ہی کے پیش نظر اس میں کلی فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ وضو برائے تبریک تھا، یہ وضو تام نہیں اور نہ اس سے نماز پڑھنا ہی مقصود تھا، اس لیے ہم نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں اس کی وضاحت کردی تھی کہ اس میں وسعت ہے اپنی طرف سے قیود لگا کر اسے محدود نہ کیا جائے۔