تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں اقامت رکھنا ایک مومن کی پسندیدہ خواہش ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! اس کی آب و ہوا کو ہمارے لیے اچھا کر دے۔‘‘ (2) وطن سے محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ نے اگرچہ اللہ کی رضا کے لیے مکہ مکرمہ چھوڑا تھا لیکن شروع شروع میں وطن کی یاد بہت آیا کرتی تھی، نیز مدینہ طیبہ کا ماحول بھی اس وقت ناسازگار تھا، خاص طور پر اس کی آب و ہوا ان کے موافق نہ تھی، اس لیے انہیں بخار ہو جاتا۔ اس دوران میں حضرت بلال ؓ بڑے درد انگیز اشعار پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے۔ مکہ کا ماحول، وہاں کے پہاڑ حتی کہ وہاں کی گھاس تک کا اپنے اشعار میں ذکر کرتے مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ان کے لیے سب سے زیادہ قیمتی تھی۔ حضرت بلال ؓ کے اشعار میں جلیل اور اذخر کا ذکر آیا ہے۔ یہ گھاس کے نام ہیں جو اطراف مکہ میں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ شامہ اور طفیل مکہ سے تیس میل کے فاصلے پر دو پہاڑ ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ مکے سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ طیبہ ایک سخت وبائی آب و ہوا کی لپیٹ میں تھا، چنانچہ مدینہ طیبہ میں آنے والے سخت بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا جحفه منتقل ہو گئی جو اس وقت مشرکین کی بستی تھی اور مدینہ طیبہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر اعتبار سے جنت کا نمونہ بن گیا۔ الغرض آج مدینہ طیبہ کی ہر بستی بابرکت ہے جس سے ساری دنیا کو فیض پہنچ رہا ہے۔