Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The washing of feet unto the ankles)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
189.
عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور انہیں نبی ﷺ کا وضو کر کے دکھایا، چنانچہ برتن کو جھکا کر اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ اس سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے صاف کیا۔ یہ سب کام تین چلوؤں سے کیے۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور چہرہ مبارک کو تین بار دھویا۔ بعد ازاں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ ڈالا اور اقبال و ادبار کے ساتھ ایک مرتبہ سر کا مسح کیا۔ اس کے بعد اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا مسئلہ دو مرتبہ بیان کر چکے ہیں (1)۔ دونوں پاؤں دھونے چاہییں، قدموں پر مسح نہیں کرنا چاہیے دیکھیے (باب 27) (2)۔ جوتوں پر مسح کرنے کے بجائے انھیں پہنے ہوئے پاؤں دھونا، دیکھیے(باب 30) اگر اس کے ساتھ ’’ایڑیاں دھونا‘‘ کے عنوان کو شامل کر لیا جائے تو گویا آپ اس مسئلے کو تین مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔ اب صرف آیت کریمہ کی ترتیب کے اعتبار سے اس مسئلے کو یہاں بیان کر رہے ہیں، لیکن تکرار سے بچنے کے لیے اس عنوان کو ’’ ٹخنوں تک‘‘ کی قید سے مقید کردیا تاکہ دوسرے تراجم سے ممتاز ہو جائے۔ 2۔ بعض شارحین نے اس عنوان کو سابق عنوان کا تکملہ قراردیا ہے کہ امام بخاری ؒ اس سے بھی مکمل سر کا مسح ثابت کر رہے ہیں کہ جب (رِجلَين) جو اعضائے وضو سے ہیں مکمل دھوئے جاتے ہیں تو مسح بھی سارے سر کا ہونا چاہیے۔ وہ اس طرح کہ پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا ثابت ہے اور سر کے ٹخنے کان ہیں، ان کے سمیت سر کا مسح کرنا ہوگا کیونکہ سنن کی جن روایات میں کانوں کو سر میں شامل کیا گیا ہے وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لطیف اسلوب سے آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 3۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ ایک اور تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ قران کریم میں پاؤں دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، یعنی انھیں ٹخنوں تک دھویا جائے۔ (أَرْجُلَكُمْ) کو منصوب پڑھیں یا مجرور دونوں صورتوں میں پاؤں کا دھونا متعین ہے کیوں کہ لفظ ’’إلى‘‘ تحدید کے لیے ہے اور مسح میں تحدید کا کوئی بھی قائل نہیں، لہذا جو لوگ اسے مجرور پڑھنے کی صورت میں پاؤں پر مسح کرنے کے متعلق کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے، نیز عربی زبان میں مسح کا لفظ دھونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اگر اسے مسح کے تحت بھی مان لیا جائے تو بھی انھیں دھونے ہی سے شارع علیہ السلام کا مقصد پورا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک انھیں دھونے ہی کا ہے، خواہ اسے منصوب پڑھیں یا مجرور۔ 4۔ پاؤں پر مسح صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب موزے پہنے ہوئے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسی حالت میں مسح کرنا ثابت ہے، لیکن پاؤں ننگے ہونے کی صورت میں دھونے کے علاوہ اور کوئی صورت متعین نہیں۔ پھر پاؤں کو دھونے سے مسح کا عمل خود بخود ادا ہو جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس مسح کرنے سے غسل کا عمل بھی ادا ہو جائے، اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ 5۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالا جا سکتا ہے، نیز سر کا مسح صرف ایک مرتبہ کرنا ہے، اس میں تکرار نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، الوضو ء، حدیث:191۔192) 6۔ رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق مختلف روایات کتب حدیث میں مروی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ جس کا جو مشاہدہ تھا اس نے بیان کردیا۔ مقصد یہ ہے کہ ان تمام طریقوں سے وضو ہو سکتا ہے۔ اعضاء کا ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے ہے، کہنیاں اور ٹخنے بھی دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلائیاں دھوئیں تا آنکہ اپنے بازؤں کو دھونے لگے، نیز آپ نے اپنے پاؤں دھوئے تاآنکہ پنڈلی کو دھونا شروع کیا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579۔(246)) اس سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ ٹخنے اور کہنیاں دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’إلیٰ‘‘ بمعنی ’’مع‘‘ ہے۔ ( فتح الباري:382/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
187
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
186
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
186
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
186
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور انہیں نبی ﷺ کا وضو کر کے دکھایا، چنانچہ برتن کو جھکا کر اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ اس سے کلی کی، ناک میں پانی چڑھایا اور اسے صاف کیا۔ یہ سب کام تین چلوؤں سے کیے۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور چہرہ مبارک کو تین بار دھویا۔ بعد ازاں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو مرتبہ دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ ڈالا اور اقبال و ادبار کے ساتھ ایک مرتبہ سر کا مسح کیا۔ اس کے بعد اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ وضو کرتے وقت پاؤں دھونے کا مسئلہ دو مرتبہ بیان کر چکے ہیں (1)۔ دونوں پاؤں دھونے چاہییں، قدموں پر مسح نہیں کرنا چاہیے دیکھیے (باب 27) (2)۔ جوتوں پر مسح کرنے کے بجائے انھیں پہنے ہوئے پاؤں دھونا، دیکھیے(باب 30) اگر اس کے ساتھ ’’ایڑیاں دھونا‘‘ کے عنوان کو شامل کر لیا جائے تو گویا آپ اس مسئلے کو تین مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔ اب صرف آیت کریمہ کی ترتیب کے اعتبار سے اس مسئلے کو یہاں بیان کر رہے ہیں، لیکن تکرار سے بچنے کے لیے اس عنوان کو ’’ ٹخنوں تک‘‘ کی قید سے مقید کردیا تاکہ دوسرے تراجم سے ممتاز ہو جائے۔ 2۔ بعض شارحین نے اس عنوان کو سابق عنوان کا تکملہ قراردیا ہے کہ امام بخاری ؒ اس سے بھی مکمل سر کا مسح ثابت کر رہے ہیں کہ جب (رِجلَين) جو اعضائے وضو سے ہیں مکمل دھوئے جاتے ہیں تو مسح بھی سارے سر کا ہونا چاہیے۔ وہ اس طرح کہ پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا ثابت ہے اور سر کے ٹخنے کان ہیں، ان کے سمیت سر کا مسح کرنا ہوگا کیونکہ سنن کی جن روایات میں کانوں کو سر میں شامل کیا گیا ہے وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لطیف اسلوب سے آپ نے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 3۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ ایک اور تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ قران کریم میں پاؤں دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، یعنی انھیں ٹخنوں تک دھویا جائے۔ (أَرْجُلَكُمْ) کو منصوب پڑھیں یا مجرور دونوں صورتوں میں پاؤں کا دھونا متعین ہے کیوں کہ لفظ ’’إلى‘‘ تحدید کے لیے ہے اور مسح میں تحدید کا کوئی بھی قائل نہیں، لہذا جو لوگ اسے مجرور پڑھنے کی صورت میں پاؤں پر مسح کرنے کے متعلق کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے، نیز عربی زبان میں مسح کا لفظ دھونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اگر اسے مسح کے تحت بھی مان لیا جائے تو بھی انھیں دھونے ہی سے شارع علیہ السلام کا مقصد پورا ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک انھیں دھونے ہی کا ہے، خواہ اسے منصوب پڑھیں یا مجرور۔ 4۔ پاؤں پر مسح صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب موزے پہنے ہوئے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسی حالت میں مسح کرنا ثابت ہے، لیکن پاؤں ننگے ہونے کی صورت میں دھونے کے علاوہ اور کوئی صورت متعین نہیں۔ پھر پاؤں کو دھونے سے مسح کا عمل خود بخود ادا ہو جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس مسح کرنے سے غسل کا عمل بھی ادا ہو جائے، اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ 5۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالا جا سکتا ہے، نیز سر کا مسح صرف ایک مرتبہ کرنا ہے، اس میں تکرار نہیں ہے۔ (صحیح البخاري، الوضو ء، حدیث:191۔192) 6۔ رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق مختلف روایات کتب حدیث میں مروی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ جس کا جو مشاہدہ تھا اس نے بیان کردیا۔ مقصد یہ ہے کہ ان تمام طریقوں سے وضو ہو سکتا ہے۔ اعضاء کا ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے ہے، کہنیاں اور ٹخنے بھی دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کلائیاں دھوئیں تا آنکہ اپنے بازؤں کو دھونے لگے، نیز آپ نے اپنے پاؤں دھوئے تاآنکہ پنڈلی کو دھونا شروع کیا۔ ( صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579۔(246)) اس سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ ٹخنے اور کہنیاں دھونے کے عمل میں شامل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’إلیٰ‘‘ بمعنی ’’مع‘‘ ہے۔ ( فتح الباري:382/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انھوں نے عمرو سے، انھوں نے اپنے باپ (یحییٰ) سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے پانی کا طشت منگوایا اور ان (پوچھنے والوں) کے لیے رسول اللہ ﷺ کا سا وضو کیا۔ (پہلے طشت سے) اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا (اور پانی لیا) پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، ناک صاف کی، تین چلوؤں سے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ منہ دھویا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور سر کا مسح کیا۔ (پہلے) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے، ایک بار۔ پھر ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): My father saw 'Amr bin Abi Hasan asking ' Abdullah bin Zaid (RA) about the ablution of the Prophet (ﷺ). ' Abdullah bin Zaid (RA) asked for earthen-ware pot containing water and in front of them performed ablution like that of the Prophet (ﷺ). He poured water from the pot over his hand and washed his hands thrice and then he put his hands in the pot and rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and then blowing it out with three handfuls of water. Again he put his hand in the water and washed his face thrice and washed his forearms up to the elbows twice; and then put his hands in the water and then passed them over his head by bringing them to the front and then to the rear of the head once, and then he washed his feet up to the ankles.