تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے حضرت محمود بن ربیع ؓ کے ایک واقعے سے استدلال کیا ہے، یہ استدلال اس صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب قائم کردہ عنوان میں وسعت پیدا کی جائے بصورت دیگر یہاں وضوئے تام تو دور کی بات ہے وضوئے ناقص بھی نہیں، گویا امام بخاری ؒ پانی کے استعمال میں تعمیم کر رہے ہیں، کلی بھی پانی کے استعمال کی ایک شکل ہے، لہٰذا ان کے نزدیک پانی کسی بھی طرح استعمال ہو، سب کا ایک ہی حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اس عمل مبارک سے برکت پہنچانا مقصود تھا اور برکت کے لیے طہارت لازم ہے۔ واضح رہے کہ حضرت محمود بن ربیع ؓ کی عمر اس وقت پانچ برس کی تھی جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر میں ڈول سے پانی لے کر ان کے منہ پر کلی کی تھی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 77) 2۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے ایک دوسری روایت بھی پیش کی ہے جو حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ اور مروان بن حکم سے نقل کی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اسے دوسرے مقام پر سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں عروہ بن مسعود ثقفی اپنے تاثرات بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والہانہ عقیدت سے متعلق ہیں، فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں قیصر و کسریٰ نجاشی اور دیگر ملوک و سلاطین کے درباروں میں بطور سفیر گیا ہوں، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے حواری اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد ﷺ کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ نے تھوکا تو آپ کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ نے اگر انھیں کوئی حکم دیا تو ہر شخص اس کی بجاآوری کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا۔ اگر آپ نے وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کے وضو کے باقی ماندہ پانی کے لیے لڑائی ہو جائے گی۔ جب آپ گفتگو کرتے ہیں تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ تمام اصحاب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں، ان کے دلوں میں آپ کی تعظیم کا یہ عالم ہے کہ آپ کو نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ ( صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731۔2732)
3۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ استعمال کیا ہوا پانی دوبارہ کام میں لایا جا سکتا ہے اور محل استدلال یہ الفاظ ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو کے پانی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھینا جھپٹی کرتے اور اسے زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اس میں دونوں احتمال ہیں۔ (1)۔ وضو کے بعد برتن میں بچے ہوئے پانی کے حصول کے لیے کوشش کرتے۔ (2)۔ ماءِ مستعمل حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتےلیکن ماءِ مستعمل کے لیے مسابقت کرنا زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ اس میں انوار و برکات جسم مبارک کے اتصال کی وجہ سے زیادہ ہوتی ہے۔
4۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ سے انتہائی محبت و عقیدت تھی، آپ کی ہر ہرادا پر جان قربان کرتے تھے۔ لیکن اصلاحی صاحب کے نزدیک یہ عقیدت محل نظر ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’رہا روایت کا آخری حصہ کہ لوگ وضو کے پانی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تو میرے نزدیک یہ ابن شہاب کا اضافہ ہے جس کو قابل قبول بنانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں اس کی تصدیق کرتے تھے۔ ابن شہاب نے یہ اضافہ صرف یہ بتانے کے لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی عقیدت آنحضرتﷺ کے ساتھ بالکل اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت تھی۔ یہ بات اگر کہہ سکتے ہیں تو عام سادہ لوگ کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی روایت میں آپ یہ بات نہیں پائیں گے کہ سید نا ابو بکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ نے کبھی ایسا کیا ہو۔‘‘ (تدبر حدیث:289/1) اس عبارت میں محدثین عظام بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جو زہر اگلا گیا ہے وہ قارئین سے مخفی نہیں۔ اس کی بنیاد علمی دلائل نہیں بلکہ ان حضرات کی عقل عیار ہے۔ اس پر ہماری درج ذیل گزارشات ہیں: (1)۔ عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اپنی قوم کے سامنے جس قسم کے جذبات واحساسات کا اظہار کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے قلبی تعلق اور حسن ارادت کی واضح دلیل ہے جسے اصلاحی صاحب نے ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت ‘‘ کانام دے کر ان حضرات کا مذاق اڑایا ہے۔ بات صرف رسول اللہ ﷺ کے وضو کا پانی لینے کے متعلق تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے۔ اس کو ’’اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ سے تعبیر کرنا عجیب ہے۔ حالانکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت ہے کہ آپ نے پانی میں اپنے ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی، پھر اس پانی کے متعلق حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت بلال ؓ کو نوش جان کرنے کا حکم دیا۔ حضرت اُم سلمہ ؓ نے ان سے کہا کہ یہ متبرک پانی میرے لیے بھی بچا کر رکھیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4328) کیا اسے بھی ’’ اندھے بہرے لوگوں کی عقیدت‘‘ کہا جائے گا؟
مذکورہ روایت مختصر ہے۔ دوسرے مقام پر تفصیلی روایت میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے جذبات کا بھی ذکر ہے۔ جب عروہ بن مسعود ؓ نے رسول ﷺ سے کہا کہ جب مصیبت آئی تو آپ کے اصحاب آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکے اور اسےبایں الفاظ جواب دیا: ’’جا اور اپنے بت لات کی شرم گاہ چوس۔‘‘ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اس جواب کے متعلق آپ کیا گوہر افشانی فرمائیں گے؟ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بھی حدیبیہ کے موقع پر قریش کی شرائط کے متعلق اپنے جذبات کا بایں الفاظ اظہار فرمایا: ’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اگر ہم حق پر ہیں تو ان کا دباؤ کیوں قبول کریں اور اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں؟‘‘ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں: میں نے اپنی اس عجلت پسندی کی تلافی کے لیے بہت نیک اعمال کیے۔ حضرت عمر ؓ کے متعلق اصلاحی صاحب کے کیا ارشادات ہیں۔