تشریح:
(1) اس دعا کا پس منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عوف بن مالک اشجعی ؓ نے خواب میں دیکھا کہ سیدنا عمر ؓ شہید کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب حضرت عمر ؓ سے بیان کیا تو آپ نے حسرت بھرے لہجے میں کہا: مجھے شہادت فی سبیل اللہ کیونکر نصیب ہو سکتی ہے جبکہ میں جزیرۃ العرب کے درمیان رہائش پذیر ہوں؟ میں خود جہاد نہیں کرتا اور اللہ کے بندے ہر وقت میرے آس پاس رہتے ہیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: مجھے شہادت کیوں نہیں نصیب ہو سکتی؟ اگر اللہ نے چاہا تو مجھے انہی حالات میں وہ شہادت سے نوازے گا۔ اس کے بعد آپ نے وہ دعا کی جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ آپ کی یہ دعا سن کر آپ کی صاجزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ ؓ نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ فی سبیل اللہ شہید ہوں اور وہ بھی مدینے میں؟ آپ نے فرمایا: اللہ چاہے گا تو یہ دونوں باتیں ہو جائیں گی۔ (2) روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ کی اس عجیب و غریب دعا سے لوگوں کو تعجب ہوتا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ دونوں باتیں کس طرح ہو سکتی ہیں؟ لیکن بدبخت ابو لؤلؤ نے مسجد نبوی کے محراب میں آپ کو زخمی کیا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ دعا کی قبولیت اس طرح مقدر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی دعا کو حرف بہ حرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ مدینہ منورہ میں 26 ذوالحجہ 23ھ بروز بدھ نماز فجر پڑھاتے ہوئے شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجرۂ مبارکہ میں انہیں دفن کیا گیا۔ (فتح الباري:131/4) اے اللہ! ہمیں بھی اپنے محبوب کے شہر مدینہ طیبہ میں شہادت کی موت نصیب فرما۔ وما ذٰلك علی الله بعزيز وهو علی كل شئي قدير