Sahi-Bukhari:
Virtues of Madinah
(Chapter: The one who avoids living in Al-Madina?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1892.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تم مدینہ کو بہت اچھی حالت میں چھوڑ جاؤگے۔ وہاں صرف پرندے اور درندے رہ جائیں گے۔ آخر میں قبیلہ مزینہ کے دو چرواہے مدینہ طیبہ آئیں گے جو اپنی بکریوں کو آوازیں دیں گے۔ وہ مدینہ کو وحشی جانوروں سے بھرا ہوا پائیں گے۔ جب وہ ثنیۃ الوداع پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) بعض شارحین نے لکھا ہے کہ جب مرکز خلافت مدینہ طیبہ تھا تو دنیا کی تمام نعمتیں وہاں موجود تھیں لیکن جب خلافت وہاں سے منتقل ہو کر شام، پھر عراق چلی گئی تو اس پر اعراب نے قبضہ کر لیا اور فتنوں کی بارش ہونے لگی، چنانچہ وہ لوگوں سے خالی ہو گیا اور ان کی جگہ درندوں اور چرندوں نے لے لی لیکن تاریخی اعتبار سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مدینہ طیبہ پر کبھی ایسا وقت آیا ہو، البتہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت مدینہ طیبہ ویران ہو جائے گا۔ یہاں پرندوں اور درندوں کا قبضہ ہو گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے نزدیک مدینہ طیبہ آخری شہر ہو گا جو تباہی و بربادی سے دوچار ہو گا: آخر کار ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ کا اصول کارفرما ہو گا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ قیامت تک آباد رہے گا۔ (فتح الباري:117/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1820
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1874
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1874
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1874
تمہید کتاب
دور جاہلیت میں مدینہ طیبہ کا نام یثرب تھا۔ یہ لفظ تثريب سے مشتق ہے جس کے معنی توبیخ و ملامت کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں آنے والوں کو ملامت کیا کرتے تھے کیونکہ اس کی آب و ہوا اچھی نہ تھی، لیکن یہ نام مدینہ طیبہ کے شایان شان نہ تھا۔ قرآن کریم نے اس نام کی نسبت منافقین کی طرف کی ہے اور اسے بطور حکایت نقل کیا ہے۔ (الاحزاب13:33) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی تشریف آوری کے بعد اس نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اس کا نام طیبہ رکھا۔ (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3356(1384)) مسند ابی داود طیالسی اور معجم الکبیر طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إن الله أمرني أن أسمي المدينة طيبة) "یقینا اللہ ذوالجلال نے مجھے اس کا نام طیبہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔" (صحیح الجامع الصغیر للالبانی،حدیث:1723) ایک روایت میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کا نام طابہ منتخب کیا ہے۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3357(1385)) طابہ اور طیبہ دونوں کے معنی پاکیزہ اور خوشگوار کے ہیں، چنانچہ مدینہ طیبہ میں قلوب و اذہان کے لیے جو سکون و اطمینان اور خوشگواری ہے وہ اسی شہر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی ہے: "اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے۔ میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اور میں مدینہ کے لیے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں اور اس کے ساتھ مزید اتنے کی دعا کرتا ہوں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3334(1373)) قرآن کریم میں مکہ کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اپنے اہل و عیال کو وہاں بسا کر کی تھی۔ وہ اس طرح ہے: "اے اللہ! تو اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت و الفت ڈال دے اور یہاں ان کی ضرورت کے مطابق پھل مہیا کر، نیز یہاں کے لیے امن و سلامتی مقدر فرما۔" (ابراھیم37:14) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی خیر و برکت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی: "اے اللہ! مدینہ طیبہ میں مکہ مکرمہ کے اعتبار سے دو چند خیروبرکت عطا فرما۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3326(1369))آپ کی اس دعا کا ثمرہ ہے کہ دنیا بھر میں جن اہل ایمان کو مکہ سے عقیدت ہے ان سب کو مدینہ طیبہ سے محبت ہے اور اس محبوبیت میں مدینہ طیبہ کا حصہ مکہ مکرمہ سے یقینا زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے قابل احترام ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ طیبہ کے حرم قرار دیے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کا درمیانی رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں کسی قسم کی خونریزی نہ کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور چارے کی ضرورت کے علاوہ یہاں درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3336(1374)) اس سے معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ بھی سرکاری علاقے کی طرح واجب الاحترام ہے اور وہاں ہر وہ اقدام منع ہے جو اس کی عظمت و حرمت کے منافی ہو لیکن اس کے احکام مکہ جیسے نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ میں جانوروں کے چارے کے لیے درختوں کے پتے جھاڑے جا سکتے ہیں جبکہ حرم مکہ میں اس کی بھی اجازت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے مزید فرمایا: "میرا جو امتی ایمان کے ساتھ مدینہ طیبہ کی سختیوں اور تکلیفوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرے گا اور وہاں پڑا رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔" (صحیح مسلم،الحج،حدیث:3339(1374)) سفارش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دے اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے۔اکثر محدثین کا دستور ہے کہ وہ اپنی تالیفات میں مناسک حج وغیرہ سے فراغت کے بعد "فضائل مدینہ" کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت و حرمت پر مشتمل احادیث بیان کرتے ہیں۔ اسی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی مسائل حج و عمرہ کے بعد کتاب فضائل المدینۃ کے تحت مدینہ طیبہ کی عظمت پر مشتمل چھبیس احادیث بیان کی ہیں۔ پھر ان پر بارہ چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کیے ہیں جن میں دو بلا عنوان ہیں۔ عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے: ٭ مدینہ کا قابل احترام ہونا۔ ٭ مدینہ طیبہ کی فضیلت، نیز وہ برے آدمی کو نکال دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ طابہ ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کے دو کنارے۔ ٭ جس نے مدینہ طیبہ سے اعراض کیا۔ ٭ ایمان مدینہ طیبہ کی طرف سمٹ آئے گا۔ ٭ اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے کا گناہ۔ ٭ مدینہ طیبہ کے محلات۔ ٭ مدینہ طیبہ میں دجال داخل نہیں ہو گا۔ ٭ مدینہ طیبہ خباثت کو دور کر دیتا ہے۔ ٭ مدینہ طیبہ کو بے آباد کرنے کی کراہت۔ ٭ بلا عنوان۔امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ چھبیس احادیث میں سے چار معلق اور بائیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں نو مکرر اور باقی سترہ خالص ہیں۔ ان میں سے دو احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر بیان کیا ہے جس سے اس عنوان کے حسن اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان پر خاتمہ کرے۔ آمین۔ اے اللہ! ہمیں حق پہچان کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تم مدینہ کو بہت اچھی حالت میں چھوڑ جاؤگے۔ وہاں صرف پرندے اور درندے رہ جائیں گے۔ آخر میں قبیلہ مزینہ کے دو چرواہے مدینہ طیبہ آئیں گے جو اپنی بکریوں کو آوازیں دیں گے۔ وہ مدینہ کو وحشی جانوروں سے بھرا ہوا پائیں گے۔ جب وہ ثنیۃ الوداع پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض شارحین نے لکھا ہے کہ جب مرکز خلافت مدینہ طیبہ تھا تو دنیا کی تمام نعمتیں وہاں موجود تھیں لیکن جب خلافت وہاں سے منتقل ہو کر شام، پھر عراق چلی گئی تو اس پر اعراب نے قبضہ کر لیا اور فتنوں کی بارش ہونے لگی، چنانچہ وہ لوگوں سے خالی ہو گیا اور ان کی جگہ درندوں اور چرندوں نے لے لی لیکن تاریخی اعتبار سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ مدینہ طیبہ پر کبھی ایسا وقت آیا ہو، البتہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قرب قیامت کے وقت مدینہ طیبہ ویران ہو جائے گا۔ یہاں پرندوں اور درندوں کا قبضہ ہو گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے نزدیک مدینہ طیبہ آخری شہر ہو گا جو تباہی و بربادی سے دوچار ہو گا: آخر کار ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ کا اصول کارفرما ہو گا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ قیامت تک آباد رہے گا۔ (فتح الباري:117/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ مدینہ کو بہتر حالت میں چھوڑ جاؤ گے پھر وہ ایسا اجاڑ ہو جائے گا کہ پھر وہاں وحشی جانور، درند اور پرند بسنے لگیں گے اور آخر میں مزینہ کے دو چرواہے مدینہ آئیں گے تاکہ اپنی بکریوں کو ہانک لے جائیں لیکن وہاں انہیں صرف وحشی جانور نظر آئیں گے آخر ثنیۃ الوداع تک جب پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔
حدیث حاشیہ:
یہ پیش گوئی قرب قیامت سے متعلق ہے۔ ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ اصول قدرت ہے تو قرب قیامت ایسا ہونا بھی بعید نہیں ہے اورفرمان نبوی اپنی جگہ بالکل حق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The people will leave Madinah in spite of the best state it will have, and none except the wild birds and the beasts of prey will live in it, and the last persons who will die will be two shepherds from the tribe of Muzaina, who will be driving their sheep towards Medina, but will find nobody in it, and when they reach the valley of Thaniyat-al-Wada', they will fall down on their faces dead."