تشریح:
(1) یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔ ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔ (عمدۃالقاري:8/7) (2) اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔ اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔