تشریح:
(1) یہ حدیث کئی ایک اعتبار سے روزے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے: ایک تو یہ کہ روزہ ڈھال ہے۔ ایک قلعہ، روایت میں ہے کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:764) مسند امام احمد کی روایت میں روزے کو ایک مضبوط قلعہ قرار دیا گیا ہے۔ (مسندأحمد:402/2) اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ جب انسان روزہ دار ہوتا ہے تو شیطان کے وار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ فضیلت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو کو کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر کہا گیا ہے جبکہ دوسری احادیث میں خون شہید کو مشک کہا گیا ہے، حالانکہ شہید اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ اسلام کا رکن اور فرض عین ہے جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ مذکورہ فرق اسی وجہ سے ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ روزے کے عمل کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ عبادت ہر قسم کی اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ روزہ ایسا عمل ہے جس پر لوگ مطلع نہیں ہو سکتے۔ اس میں ریاکاری کے امکان کم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ جب اس عمل کا ثواب دے گا تو اعداد و شمار کے بغیر بے حد و حساب ثواب عنایت کرے گا۔ (2) روزہ دار کی جزا خود اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا جبکہ دوسرے اعمال کی جزا فرشتوں کی وساطت سے دی جاتی ہے۔ بہرحال اس حدیث میں کئی ایک پہلوؤں سے روزے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی روزے کی فضیلت کو ثابت کرنا ہے۔