تشریح:
(1) اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ ’’نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘ (ھود114:11) لیکن کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوں گے۔ اس طرح حقوق العباد بھی حق دینے یا معافی لینے سے معاف ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ توبہ گناہوں کی معافی کے لیے شرط نہیں اللہ تعالیٰ کسی اور نیکی کی بنا پر بھی کبیرہ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے، البتہ توبہ گناہوں کی معافی کا ایک اہم سبب ضرور ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کو اپنے شہید ہونے کا حتمی علم تھا جیسے کل کے دن سے پہلے رات کا آنا یقینی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوا کہ سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا دروازہ کھلا جو ابھی تک بند نہیں ہوا۔ ملت اسلامیہ آج تک ان فتنوں سے دوچار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ پانچوں نمازیں اور رمضان سے دوسرے رمضان تک اگر انسان بڑے گناہوں سے پرہیز کرے تو یہ دوسرے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:552(233)) ایک اور حدیث میں ہے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کو پہچانا تو یہ روزے گذشتہ گناہوں کے لیے کفارہ ہوں گے۔ (شعب الإیمان، فضائل شھررمضان:310/3) (3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب الصلاة كفارة) ’’نماز کفارہ ہے۔‘‘ اسی طرح کتاب الزکاۃ میں ایک باب اس طرح قائم کیا ہے: (باب الصدقة تكفر الخطيئة) ’’صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ بہرحال روزہ رکھنے سے اجروثواب کے ساتھ ساتھ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (فتح الباري:143/4)