تشریح:
(1) اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری نے ایک حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ابن عدی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مرفوعا بیان کیا ہے کہ رمضان مت کہو کیونکہ رمضان، اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے۔ اس کی سند میں ابو معشر نامی راوی ضعیف ہے۔ ان احادیث میں لفظ رمضان مجرد استعمال ہوا ہے ان میں اس کے ساتھ شهر وغیرہ استعمال نہیں ہوا جبکہ شهر رمضان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں استعمال کیا ہے۔ ثابت ہوا کہ دونوں طرح اس مہینے کا نام لیا جا سکتا ہے۔ (2) امام نسائی نے اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (الرخصة في أن يقال لشهر رمضان رمضان) ’’شہر رمضان کو صرف رمضان کہنے کی رخصت کا بیان۔‘‘ پھر انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنے کا حج کے برابر ثواب ملتا ہے، (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2112) بہرحال جمہور اس کے جواز کے قائل ہیں۔ (3) ماہ رمضان کو رمضان کہنے کی حسب ذیل دو وجوہات ہیں: ٭ رمضاء شدت گرمی کو کہتے ہیں۔ اس مہینے میں روزہ رکھنے سے گناہ جل جاتے ہیں۔ ٭ رمضان میں روزوں کی ابتدا سخت گرمی کے دنوں میں ہوئی تھی۔ (فتح الباري:146/4) (4) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رمضان میں جب شیاطین کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے تو روئے زمین پر اس ماہ مبارک میں نافرمانی کیوں ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاد آدم کو گمراہ کرنے والی کئی قوتیں متحرک ہیں صرف ایک قوت کو بے بس کر دیا جاتا ہے باقی قوتیں مسلسل اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں۔