تشریح:
1۔ فتنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان گمراہ ہوکر اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے غافل ہو جائے۔ ہمارے اس دور میں ایسے فتنوں کا ہجوم ہے جو گمراہی اور دین سے بے زاری کا سبب بنتے ہیں ایسے حالات میں گوشہ تنہائی اختیار کرنا بہتر ہے اگرانسان میں ایسے دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی، عملی اور اخلاقی ہمت ہو تو معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی روک تھام میں کوشاں رہنا افضل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرُفتن دور میں مکہ مکرمہ، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔ واضح رہے کہ فرار کے تین مرتبے ہیں۔
(1) فرار من دارالکفر۔ (2) فرار من دارالفسق۔ (3) فرار من مجلس المعاصی۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے تمام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا عمل ہے اور ایساکرنا ایمان کاحصہ ہے۔ جولوگ اس طرح کے اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قراردیتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔
3۔ اس حدیث میں بکریوں کو بہترین مال قراردیا گیا ہے کیونکہ ان کی پرورش بہت آسان ہوتی ہے لیکن ان سے نفع بہت ہوتا ہے ان کا دودھ حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے گرانی پیدا نہیں ہوتی۔ بکری کی نسل بہت بڑھتی ہے، جنگلات میں خوراک کے لیے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے باآسانی پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے، اس بنا پر پُرفتن دور میں پہاڑوں اور جنگلات میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گزر اوقات کرنا مناسب ہے۔ (شرح الکرماني:110/1)