باب:اس بیان میں کہ فتنوں سے دور بھاگنا (بھی) دین (ہی) میں شامل ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To flee (run away) from Al-Fitn (afflictions and trials), is a part of religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
19.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کی طرف نکل جائے گا اور فتنوں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے دین کو بچا لے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ فتنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان گمراہ ہوکر اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے غافل ہو جائے۔ ہمارے اس دور میں ایسے فتنوں کا ہجوم ہے جو گمراہی اور دین سے بے زاری کا سبب بنتے ہیں ایسے حالات میں گوشہ تنہائی اختیار کرنا بہتر ہے اگرانسان میں ایسے دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی، عملی اور اخلاقی ہمت ہو تو معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی روک تھام میں کوشاں رہنا افضل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرُفتن دور میں مکہ مکرمہ، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔ واضح رہے کہ فرار کے تین مرتبے ہیں۔ (1) فرار من دارالکفر۔ (2) فرار من دارالفسق۔ (3) فرار من مجلس المعاصی۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے تمام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا عمل ہے اور ایساکرنا ایمان کاحصہ ہے۔ جولوگ اس طرح کے اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قراردیتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔ 3۔ اس حدیث میں بکریوں کو بہترین مال قراردیا گیا ہے کیونکہ ان کی پرورش بہت آسان ہوتی ہے لیکن ان سے نفع بہت ہوتا ہے ان کا دودھ حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے گرانی پیدا نہیں ہوتی۔ بکری کی نسل بہت بڑھتی ہے، جنگلات میں خوراک کے لیے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے باآسانی پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے، اس بنا پر پُرفتن دور میں پہاڑوں اور جنگلات میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گزر اوقات کرنا مناسب ہے۔ (شرح الکرماني:110/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
19
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
19
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
19
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
19
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے ان امور کو بیان فرمایا جنھیں حاصل کرنا چاہیے۔اب ان امور کا ذکرکرتے ہیں جن سے بچناچاہیے کیونکہ قاعدہ ہے کہ اضداد کے بیان سے اشیاء کی معرفت زیادہ ہوتی ہے ،نیزآپ نے یہاں لفظ دین استعمال فرمایا جبکہ قبل ازیں مسلمان یا اسلام استعمال فرمایاتھا،یہ اشارہ ہے کہ تینوں ایک ہی حقیقت کے نام ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات کی طرف نکل جائے گا اور فتنوں سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے دین کو بچا لے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ فتنے سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان گمراہ ہوکر اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے غافل ہو جائے۔ ہمارے اس دور میں ایسے فتنوں کا ہجوم ہے جو گمراہی اور دین سے بے زاری کا سبب بنتے ہیں ایسے حالات میں گوشہ تنہائی اختیار کرنا بہتر ہے اگرانسان میں ایسے دجالی فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی، عملی اور اخلاقی ہمت ہو تو معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی روک تھام میں کوشاں رہنا افضل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے پرُفتن دور میں مکہ مکرمہ، اس کے بعد مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی۔ واضح رہے کہ فرار کے تین مرتبے ہیں۔ (1) فرار من دارالکفر۔ (2) فرار من دارالفسق۔ (3) فرار من مجلس المعاصی۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے تمام لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنا اچھا عمل ہے اور ایساکرنا ایمان کاحصہ ہے۔ جولوگ اس طرح کے اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قراردیتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں ہے۔ 3۔ اس حدیث میں بکریوں کو بہترین مال قراردیا گیا ہے کیونکہ ان کی پرورش بہت آسان ہوتی ہے لیکن ان سے نفع بہت ہوتا ہے ان کا دودھ حفظان صحت کے لیے بہت مفید ہے، اس کے استعمال سے گرانی پیدا نہیں ہوتی۔ بکری کی نسل بہت بڑھتی ہے، جنگلات میں خوراک کے لیے انتظام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے باآسانی پہاڑوں پر چڑھ جاتی ہے، اس بنا پر پُرفتن دور میں پہاڑوں اور جنگلات میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گزر اوقات کرنا مناسب ہے۔ (شرح الکرماني:110/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے (اس حدیث کو) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے اسے مالک سے نقل کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انھوں نے اپنے باپ (عبداللہ) سے، وہ ابوسعید خدریؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ وفساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے توایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہترہے۔ فتنہ میں فسق وفجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلاجائے۔ جہاں فتنہ وفساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔ حضرت امام کا مقصد یہی ہے کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔ بکری کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پالیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانورہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کونفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کرکے اس مفید ترین جانور کی پرورش سے گذران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پرفتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کواختیارکیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان واسلام کی حفاظت مقصود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "A time will come that the best property of a Muslim will be sheep which he will take on the top of mountains and the places of rainfall (valleys) so as to flee with his religion from afflictions".