تشریح:
(1) روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان پرہیزگار اور تقویٰ شعار بن جائے۔ اگر یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو روزہ نہیں بلکہ فاقہ کشی ہے جس کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کیونکہ روزہ دار جھوٹ اور دغا بازی کے ذریعے سے روزے کی توہین کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ قاضی بیضاوی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ روزہ رکھنے کا مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اس کا مقصد شہوت نفسانی کو ختم کرنا اور نفس امارہ کو نفس مطمئنہ کے تابع کرنا ہے۔ جب روزے دار کو یہ چیزیں حاصل نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ اس قسم کے روزے کو اپنے ہاں شرف قبولیت ہی سے نوازے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹ بولنے والے کو روزہ ترک کرنے کا حکم دیا جائے بلکہ اس کا مقصد روزے دار کو اس قسم کی بری حرکت سے باز رکھنا ہے۔ (فتح الباري:151/4) واللہ أعلم۔
(2) قول الزور سے مراد جھوٹ ہے، تہمت اور باطل پر عمل بھی اس میں شامل ہے، نیز جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے باز نہ رہنا جھوٹ پر عمل کرنا ہے۔
(3) امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں جواب شرط کو ذکر نہیں کیا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود تھی، نیز اگر اسے ذکر کیا جاتا تو عنوان کافی طویل ہو جاتا، اس لیے امام بخاری نے حسب عادت اسے حذف کر دیا ہے۔ (عمدةالقاري:33/8)