تشریح:
(1) عبادت کا اظہار مکروہ ہے، اسے ہر ممکن انداز سے مخفی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس کے اظہار میں کچھ فائدہ ہو تو اسے ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ریا اور شہرت مقصود نہ ہو۔ اس مقام پر روزے کے عمل کو ظاہر کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ شاید سب و شتم کرنے والا جاہل مزید بدتمیزی سے باز آ جائے اور شرم کی وجہ سے وہ روزے دار کی طرح بن جائے۔ یہاں ایک اشکال ہے: حدیث میں وضاحت ہے کہ جب روزے دار سے کوئی بدتمیزی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے روزے دار ہونے کا زبان سے اظہار کر دے لیکن امام بخاری ؒ نے لفظ هل سے عنوان قائم کیا ہے جو تردد پر دلالت کرتا ہے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ روزے دار کو زبان سے کہنا چاہیے یا خود کو مخاطب کر کے اپنے دل میں کہہ دے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ اسے اپنے دل میں کہنا چاہیے جبکہ بعض حضرات کے نزدیک زبان سے کہنا زیادہ بہتر ہے اور اگر دونوں کو جمع کر لے تو بہت ہی اچھا ہے، اس اختلاف کی بنا پر امام بخاری نے لفظ هل سے عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:136/4) اس مسئلے میں تین قول ہیں: ٭ دل میں کہے، زبان سے اس کا اظہار نہ کرے۔ ٭ زبان سے کہہ دے تاکہ جاہل آدمی بے ہودگی سے باز آ جائے۔ ٭ فرض روزے میں زبان سے کہے اور نفل روزے میں دل سے کہے۔ دوسرا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ (عمدةالقاري:10/8)
(2) روزہ دار افطاری کے وقت اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے روزہ پورا کرنے کی توفیق دی اور روزے کو فاسد کرنے والی اشیاء سے اسے محفوظ رکھا، نیز سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد کھانے پینے سے طبعی طور پر خوشی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت اس لیے خوش ہو گا کہ اس نے روزہ قبول کر لیا ہے اور اسے اچھا بدلہ دیا ہے۔ (فتح الباري:152/4)