تشریح:
(1) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نکاح کے اخراجات پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ جماع کی طاقت رکھتا ہے وہ ضرور نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کے اخراجات پر قادر نہیں وہ روزے رکھے کیونکہ ایسا کرنے سے شہوت کمزور ہو جاتی ہے اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ آغاز میں حرارت غریزی کے جوش مارنے سے شہوت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن چند روزے رکھنے کے بعد شہوت کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے، کیونکہ جماع کی خواہش کھانے پینے کے تابع ہوتی ہے، وہ کھانے پینے سے قوی اور اس سے پرہیز کرنے سے کمزور ہوتی ہے، اس لیے زیادہ روزے رکھنے سے شہوت خودبخود کمزور ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:153/4)
(2) واضح رہے کہ نکاح کی تین اقسام ہیں: ٭ اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت ہے۔ شریعت نے اس کی ترغیب دی ہے۔ ٭ غلبۂ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ کی حفاظت اور نگاہ میں حیا آتا ہے۔ ٭ جب اسے بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ ہے کیونکہ نکاح کی مشروعیت مصالح کے تابع ہے، ایسے حالات میں انسان کو روزے رکھنے چاہئیں۔
(3) واضح رہے کہ روزہ اللہ کی رضا کے لیے اس وقت ہوتا ہے جب اس سے کوئی دینی یا دنیوی مصلحت وابستہ نہ کی جائے، زنا سے بچنے کے لیے روزہ رکھنا اس اخلاص کے منافی ہے، یہ ایک اعتراض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی عبادت پر کوئی دینی غرض مرتب ہوتی ہو تو اس کا ارادہ کرنا اخلاص کے لیے نقصان دہ نہیں۔ زنا سے بچنا جو روزہ رکھنے پر مرتب ہوتا ہے اس سے بھی اللہ کی رضا مقصود ہے۔ تو یہ غرض روزے کی اصلی غرض کے منافی نہیں ہو گی۔