تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے انتہائی اختصار کے ساتھ یہ حدیث بیان کی ہے۔ مسلم کی روایت میں تفصیل ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے اشارے سے فرمایا کہ مہینہ اس طرح، اس طرح اور تیسری مرتبہ ایک انگلی کو بند کر کے فرمایا کہ اس طرح ہوتا ہے، یعنی 10+10+9=29 انتیس دن کا اور کبھی اس طرح، اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے، یعنی 10+10+10=30 پورے تیس دن کا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2511(1080)) (2) اس حدیث سے یہ وضاحت کرنا مقصود ہے کہ ہماری عبادات کو کھلی اور واضح علامتوں کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے، چنانچہ اس سائنسی دور میں بڑی بڑی دور بینوں سے چاند برآمد کر لینا اور پھر وحدت امت کی آڑ میں تمام ممالک اسلامیہ میں ایک ہی دن رمضان کا آغاز یا عید کا اہتمام کرنا فطرتِ اسلام کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے اس فطری سادگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حساب سے مراد نجوم کا حساب ہے اور عرب اس سے ناواقف تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھنے اور عید منانے کو چاند دیکھنے پر موقوف رکھا ہے تاکہ امت کو حساب کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ قیامت تک یہی حکم باقی رہے گا اگرچہ بعد میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو علم نجوم میں ماہر ہوں۔ (4) رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے کہ اگر بادل یا گردوغبار کی وجہ سے انتیس تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو موجودہ مہینے کو تیس دن کا شمار کر لیا جائے۔ آپ نے حساب وغیرہ کا قطعا اعتبار نہیں کیا، بصورت دیگر آپ فرما دیتے کہ اہل حساب سے دریافت کر لو۔ اہل حساب کا علم محض ظن و تخمین پر مبنی ہے، اس میں قطعیت نہیں ہے، اس لیے اس پر انحصار کیا جائے تو معاملہ انتہائی خطرناک ہو جائے گا، نیز علم نجوم جاننے والے بہت کم لوگ ہیں۔ (فتح الباري:163/4)