تشریح:
(1) ہمارے پیش نظر صحیح بخاری کا جو نسخہ ہے اس میں أدرك السحور کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہم نے ’’نماز فجر‘‘ کیے ہیں کیونکہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المواقیت، حدیث:577) بخاری کے دیگر نسخوں میں السجود کے الفاظ ہیں اور یہی صحیح ہے۔ (فتح الباري:176/4) (2) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ سحری کھانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کے اور نماز فجر کے درمیان بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے، اگر دیر سے فراغت ہو تو خطرہ ہے نماز فجر رہ جائے، اس لیے جلدی فارغ ہو کر جماعت میں شمولیت کرنی چاہیے۔ حضرت سعد ؓ بھی اسی مقصد کے پیش نظر جلدی کرتے تھے جیسا کہ امام مالک حضرت ابوبکر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم صلاۃ اللیل سے فارغ ہو کر سحری کھانے میں جلدی کرتے مبادا نماز فجر رہ جائے۔ (3) ابن بطال نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کو اس حدیث پر تأخير السحور کا عنوان قائم کرنا چاہیے تھا، چنانچہ علامہ عینی ؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تأخير السحور کو ہی بیان کیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان صحیح ہے اور اسی میں جامعیت ہے۔ واللہ أعلم