Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The using of the remaining water after ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
193.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میری خالہ مجھے نبی ﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا بھانجا بیمار ہے۔ تو آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ پھر میں آپ کے پس پشت کھڑا ہوا اور مہر نبوت کو دیکھا جو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان چھپر کھٹ کی گھنڈی (یا کبوتری کے انڈے) جیسی تھی۔
تشریح:
1۔ یہ باب عنوان کے بغیر ہے، اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہیں (1)۔ فضل ماءِ کے دو معنی ہیں: ایک وہ پانی جو وضو کے بعد برتن میں بچ رہے اور دوسرے وہ پانی جو اعضائے وضو دھونے کے بعد نیچے گرے، اسے فقہاء کی اصلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ پہلے باب میں ماءِ مستعمل کا بیان تھا اور اس باب میں اس پانی کا ذکر ہے جو وضو کے بعد برتن میں باقی بچ رہتا ہے۔ (2)۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر ماسبق باب کے مضمون میں کوئی کمی رہ جائے تو بلا عنوان باب سے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہاں بھی سابقہ روایات میں ماءِ مستعمل کو پینے کی اجازت کا ذکر تھا لیکن کمی یہ تھی کہ وہاں وضوئے تام نہیں بلکہ صرف ہاتھ منہ دھونے اور کلی کا ذکر تھا جو وضوئے ناقص ہے۔ اس سے اشکال ہو سکتا تھا وضوئے تام کا شاید کوئی اور حکم ہو گا۔ امام بخاری ؒ نے اس بلا عنوان میں اس کی تلافی کر دی اور ایسی حدیث پیش کی جس میں وضوئے تام کی تصریح ہے۔ 2۔ حضرت سائب بن یزید ؒ کہتے ہیں: میں نے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس میں دونوں احتمال ہیں کہ وضو کے بعد برتن میں بچا ہوا پانی مراد ہو یا اعضائے شریفہ سے ٹپکنے والا پانی نوش کیا ہو۔ لیکن آپ کے استعمال کردہ پانی کو برکت اور بیماری کے علاج کے لیے استعمال کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو ماءِ مستعمل کونجس کہتے ہیں، حالانکہ ماءِ مستعمل پلید نہیں، کیونکہ ناپاک چیز برکت کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر انھوں نے ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد جو تری اعضاء پر باقی رہتی ہے یا وہ قطرے جو دوران وضو میں کپڑوں پر گرتے ہیں۔ ان کے پاک ہونے پر اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءِ مستعمل بھی پاک ہے، اسے نجس قراردینا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:388/1) 4۔ واضح رہے کہ ’’ماءِ مستعمل‘‘ کے متعلق فقہاء کا اختلاف اس وضو یا غسل سے متعلق ہے جو بطور تقرب کیا گیا ہو۔ اگر وضو پر وضو کیا گیا ہے یا محض ٹھنڈک یا نظافت کے لیے پانی استعمال ہوا ہے تو اس قسم کے پانی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ ایسا پانی طاہر و مطہر ہے۔ 5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماربچے کو کسی بزرگ کے پاس بغرض دعا لے جانا تقوی کے خلاف نہیں ہے نیز بچوں سے پیار اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کرنا سنت نبوی ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓ کے متعلق رسول الله ﷺ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ چورانوے (94) سال کی عمر میں تندرست و توانا تھے اور آپ کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540) 6۔ اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر بھی ’’تدبر‘‘ فرما کر اس کے انکار کا راستہ ہموار کیا ہے۔ چنانچہ مہر نبوت کے متعلق حضرت سائب بن یزید ؓ کے بیان پر بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: ’’ایک کم عمر بچے کی زبان سے بیان محل نظر ہے کیا آنحضرت ﷺ نےنماز میں جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رکھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہو توسائب کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مہر نبوت ہے؟ ایک بچے کا خیال اس طرف نہیں جا سکتا، ہاں اس کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، کسی طرح یہ بات رائج کر دی گئی اور یہ بعض لوگوں میں پھیل گئی۔ ‘‘ (تدبر حدیث:290/1) اس بیان پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: (1)۔ اصلاحی صاحب نے مہر نبوت کے انکار کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے جسم کا اوپر کا حصہ کھلا ہوا نہیں تھا جس پر مہر نبوت کا مشاہدہ کیا جا سکتا۔ اصلاحی صاحب کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہے، کیونکہ جب حضرت سائب بن یزید ؓ نے مہر نبوت کو دیکھا تو نبی اکرم ﷺ نمازمیں نہیں تھے۔ یہ ان کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کی احادیث سے تائید نہیں ہوتی۔ (2)۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت سائب کو کیسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ مہر نبوت ہے؟ حضرت سائب ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے۔ اس وقت بچپن ختم ہو چکا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے چورانوے سال کی عمر میں بھی آپ تندرست و توانا تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540) نیز عہد رسالت میں پروان چڑھنے والے بچے ہمارے بچوں جیسے نہیں تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے بچے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں قرآن کریم کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا اور لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302) (3)۔ اصلاحی صاحب نے الزام لگایا ہے کہ ان کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس روایت کی سند میں ابن شہاب زہری نہیں ہیں جو ان کے حلق کا کانٹا ہے، بصورت دیگر انھیں موردِ الزام ٹھہرادیا جاتا کہ انھوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مستشرقین و ملحدین نے مہر نبوت کا انکار اصلاحی صاحب کے منہ میں ڈالا ہے جسے انھوں نے وقت ملتے ہی اگل دیا ہے۔ (3)۔ مہر نبوت کا مشاہدہ کرنے والے تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کی تفصیل یہ ہے حضرت سائب بن یزید ؓ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:190) اُم خالد بنت خالد ؓ ، جابر بن سمرہ ؓ (صحیح البخاري، الجہاد والسیر، حدیث: 3071) عبد اللہ بن سرجس ؓ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346)) قرہ بن ایاس مزنی ؓ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث:4082) رمیثہ بنت عمرو ؓ (مسند أحمد: 329/6) ابو زید عمرو بن اخطب ؓ (مسند أحمد: 340/5) حضرت سلمان فارسی ؓ (مسند أحمد: 438/5) قبیلہ بنی عامر کا طبیب (مسند أحمد: 223/1) نیز امام ترمذی ؒ نے حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت ابو سعید کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مہر نبوت کے اثبات کے متعلق محدثین عظام نے اپنی تصانیف میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور امام بخاری ؒ ، امام مسلم ؒ اور امام ترمذی ؒ نے اس پر عنوان بندی کر کے پھر مختلف احادیث سے اسے ثابت کیا ہے۔ علمائے اہل کتاب کے ہاں رسول ﷺ کی یہ امتیازی علامت معروف تھی اس سلسلے میں صرف دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں: (1)۔ رسول الله ﷺ جب اپنے چچا ابو طالب کے ہمرا بغرض تجارت شام کے علاقے میں گئے تو آپ کے ہمراہ قریش کے بڑے بڑے مشائخ بھی تھے، انھیں راستے میں ایک راہب ملا تو اس نے آپ کو اس مہر نبوت سے پہچانا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3620) (2)۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کو ایک راہب نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے، ہدیہ قبول کریں گے اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان تینوں علامتوں کا مشاہدہ کیا اور مسلمان ہوئے۔ (مسند أحمد :443/5) اتنے حقائق کے باوجود اگر کہا جائے کہ مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خانہ ساز اور خود ساختہ ’’تدبر‘‘ کے برگ وبار اور فیوض و برکات ہیں۔ یقیناً ان حضرات نے تدبر حدیث کے نام سے انکار حدیث کا جو خار دار پودا کاشت کیا تھا، اب وہ اللہ کے ہاں ان کے کانٹوں کی چبھن ضرور محسوس کر رہے ہوں گے: ( فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا) قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ احادیث پر تدبر فرمانے والوں نے پہلے قرآن کریم کو تدبر کی بھینٹ چڑھایا۔ ان حضرات کی احادیث کے متعلق دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ تفسیر تدبر قرآن جو آٹھ جلدوں اور ساڑھے چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ان چار ہزار آٹھ صد ستر صفحات میں گنتی کی کل چالیس احادیث ذکر کی ہیں۔ البتہ جاہلی ادب اور لغت کی باریکیوں کی طرف کافی رجحان ہے۔ انھوں نے مبادی تدبر قرآن میں تفسیر کے چار قطعی اصول بیان فرمائے ہیں: 1۔ ادب جاہلی، 2۔ نظم قرآن، 3۔ تفسیر القرآن، 4۔ سنت متواترہ اس کے بعد ظنی ماخذ کے طور پر احادیث کو قبول کیا گیا ہے، احادیث سے اس قدر بے اعتنائی بڑی معنی خیز ہے۔ نوٹ:۔ مہرنبوت کی ماہیت وکیفیت اور اس کی غایت وحکمت کتاب المناقب میں تفصیل سے بیان ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
190
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
190
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
190
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
190
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں مطلق طور پر تین الفاظ استعمال کیے ہیں ان کے ساتھ کسی قید کا ذکر نہیں کیا اس بنا پر عنوان کا مفہوم بہت وسیع ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔1۔استعمال اس سے مراد پانی کو کام میں لانے کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں وہ اس میں شامل ہیں مثلاً: نوش کرنا، نہانا ،کپڑے دھونا ،اور وضو کرنا وغیرہ 2۔ فضل :یہ لفظ بھی اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے یعنی اس سے مراد وہ پانی بھی ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو اور وہ بھی مراد ہے جو اعضاء کو دھوتے وقت ٹپک ٹپک کر کسی جگہ جمع ہو گیا ہو۔3۔وضو:اس میں بھی توسیع ہے کہ اس سے مراد وضوئے حدث بھی ہو سکتا ہے اور وضوئے مستحب بھی ہو سکتا ہے جسے وضو علیٰ وضو کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک فضل وضو دونوں معنوں کے اعتبار سے طاہر بھی ہے اور مطہر بھی جبکہ بعض لوگ اسے طاہر تو مانتے ہیں لیکن رفع حدث کے لیے دوبارہ اس قسم کے پانی کو وضو میں استعمال کرنا صحیح نہیں سمجھتے کیونکہ اس سے ایک مرتبہ طہارت حاصل کی جاچکی ہے بعض فقہاء کے نزدیک جو پانی وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہو، اس قسم کا ماء مستعمل نجس ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ پانی جو رفع حدث کے لیے ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہے اس میں حدیث کے مطابق وہ معاصی بھی شامل ہو گئے ہیں جو وضو کرنے سے پہلے اعضاء سے سر زد ہوئے تھے اس بنا پر یہ نجاست ظاہری نہیں جو بصارت اور حواس ظاہری سے معلوم کی جا سکتی ہو بلکہ یہ نجاست معنوی ہے جس کا تعلق بصیرت اور دل کی بیداری سے ہے ان کے نزدیک اگر کسی کے صغیرہ گناہ دھلے ہیں تو یہ پانی نجاست خفیفہ کا حکم رکھتا ہے اور اگر کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے توماء مستعمل نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے لیکن اس فکر کے پس منظر میں کوئی روایت نہیں بلکہ محض عقل کے بل بوتے پر اسے نجس ثابت کیا جا رہا ہے جس کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں البتہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس عنوان سے وہ پانی مراد ہے جو وضو کے بعد برتن میں بچ گیا ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک "ٖفضل"سے مراد وہ دونوں صورتیں ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک اثر اور چند حدیثیں پیش کی ہیں جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ اثر کو ابن ابی شیبہ (1/313)اور دارقطنی نے موصولاً بیان کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی میں ڈبو ڈبو کر مسواک کرتے پھر اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیتے۔ دارقطنی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم اس پانی سے وضو کرو جس میں مسواک کو ڈبویا گیا ہے، مسواک چونکہ حدیث کے مطابق (مطهرة للفم)"منہ کو پاک کرنے کا آلہ ہے"جس طرح وجو(مطهرة للبدن) "بدن کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔"منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک کا وہی حکم ہے جو بدن کی طہارت کے لیے استعمال شدہ پانی کا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثر بیان فرمایا ہے منہ کی طہارت کے لیے استعمال شدہ مسواک پانی میں ڈالی گئی اگر وہ استعمال کے قابل نہ ہوتا تو حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے استعمال کرنے کا حکم کیوں دیتے؟امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس اثر کا مطلب دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کے برتن میں مسواک ڈالتے اور اسے استعمال کرتے جب مسواک سے فارغ ہو جاتے تو اس پانی سے وضو کر لیتے۔اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے لیکن اس کی سند درست نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن التین وغیرہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے وہ پانی مراد ہے جس میں مسواک کو نرم کرنے کے لیے تر کیا جاتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل مذکور سے پانی میں کوئی تغیر نہیں آیا اور انھوں نے اس غیر متغیر پانی کو استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح پانی کو صرف استعمال کرنے سے بھی اس میں کوئی تغیر نہیں آتا لہٰذا اس سے دوبارہ طہارت حاصل کرنا ممنوع نہیں ہو گا۔( فتح الباری:1/385۔)
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میری خالہ مجھے نبی ﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا بھانجا بیمار ہے۔ تو آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ پھر میں آپ کے پس پشت کھڑا ہوا اور مہر نبوت کو دیکھا جو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان چھپر کھٹ کی گھنڈی (یا کبوتری کے انڈے) جیسی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ باب عنوان کے بغیر ہے، اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہیں (1)۔ فضل ماءِ کے دو معنی ہیں: ایک وہ پانی جو وضو کے بعد برتن میں بچ رہے اور دوسرے وہ پانی جو اعضائے وضو دھونے کے بعد نیچے گرے، اسے فقہاء کی اصلاح میں ماءِ مستعمل کہتے ہیں۔ پہلے باب میں ماءِ مستعمل کا بیان تھا اور اس باب میں اس پانی کا ذکر ہے جو وضو کے بعد برتن میں باقی بچ رہتا ہے۔ (2)۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر ماسبق باب کے مضمون میں کوئی کمی رہ جائے تو بلا عنوان باب سے اس کی تلافی کرتے ہیں۔ یہاں بھی سابقہ روایات میں ماءِ مستعمل کو پینے کی اجازت کا ذکر تھا لیکن کمی یہ تھی کہ وہاں وضوئے تام نہیں بلکہ صرف ہاتھ منہ دھونے اور کلی کا ذکر تھا جو وضوئے ناقص ہے۔ اس سے اشکال ہو سکتا تھا وضوئے تام کا شاید کوئی اور حکم ہو گا۔ امام بخاری ؒ نے اس بلا عنوان میں اس کی تلافی کر دی اور ایسی حدیث پیش کی جس میں وضوئے تام کی تصریح ہے۔ 2۔ حضرت سائب بن یزید ؒ کہتے ہیں: میں نے بچا ہوا پانی نوش کیا۔ اس میں دونوں احتمال ہیں کہ وضو کے بعد برتن میں بچا ہوا پانی مراد ہو یا اعضائے شریفہ سے ٹپکنے والا پانی نوش کیا ہو۔ لیکن آپ کے استعمال کردہ پانی کو برکت اور بیماری کے علاج کے لیے استعمال کرنا زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان احادیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو ماءِ مستعمل کونجس کہتے ہیں، حالانکہ ماءِ مستعمل پلید نہیں، کیونکہ ناپاک چیز برکت کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر انھوں نے ابن منذر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وضو کرنے کے بعد جو تری اعضاء پر باقی رہتی ہے یا وہ قطرے جو دوران وضو میں کپڑوں پر گرتے ہیں۔ ان کے پاک ہونے پر اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءِ مستعمل بھی پاک ہے، اسے نجس قراردینا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:388/1) 4۔ واضح رہے کہ ’’ماءِ مستعمل‘‘ کے متعلق فقہاء کا اختلاف اس وضو یا غسل سے متعلق ہے جو بطور تقرب کیا گیا ہو۔ اگر وضو پر وضو کیا گیا ہے یا محض ٹھنڈک یا نظافت کے لیے پانی استعمال ہوا ہے تو اس قسم کے پانی کے متعلق کوئی اختلاف نہیں۔ ایسا پانی طاہر و مطہر ہے۔ 5۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماربچے کو کسی بزرگ کے پاس بغرض دعا لے جانا تقوی کے خلاف نہیں ہے نیز بچوں سے پیار اور ان کے لیے خیرو برکت کی دعا کرنا سنت نبوی ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓ کے متعلق رسول الله ﷺ کی دعا کا یہ اثر تھا کہ آپ چورانوے (94) سال کی عمر میں تندرست و توانا تھے اور آپ کی سماعت و بصارت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540) 6۔ اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر بھی ’’تدبر‘‘ فرما کر اس کے انکار کا راستہ ہموار کیا ہے۔ چنانچہ مہر نبوت کے متعلق حضرت سائب بن یزید ؓ کے بیان پر بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں: ’’ایک کم عمر بچے کی زبان سے بیان محل نظر ہے کیا آنحضرت ﷺ نےنماز میں جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رکھا ہوا تھا؟ اگر ایسا ہوا ہو توسائب کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مہر نبوت ہے؟ ایک بچے کا خیال اس طرف نہیں جا سکتا، ہاں اس کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا، کسی طرح یہ بات رائج کر دی گئی اور یہ بعض لوگوں میں پھیل گئی۔ ‘‘ (تدبر حدیث:290/1) اس بیان پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: (1)۔ اصلاحی صاحب نے مہر نبوت کے انکار کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ نماز میں رسول اللہ ﷺ کے جسم کا اوپر کا حصہ کھلا ہوا نہیں تھا جس پر مہر نبوت کا مشاہدہ کیا جا سکتا۔ اصلاحی صاحب کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہے، کیونکہ جب حضرت سائب بن یزید ؓ نے مہر نبوت کو دیکھا تو نبی اکرم ﷺ نمازمیں نہیں تھے۔ یہ ان کا اپنا قائم کردہ مفروضہ ہے جس کی احادیث سے تائید نہیں ہوتی۔ (2)۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت سائب کو کیسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں وہ مہر نبوت ہے؟ حضرت سائب ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے۔ اس وقت بچپن ختم ہو چکا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے چورانوے سال کی عمر میں بھی آپ تندرست و توانا تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3540) نیز عہد رسالت میں پروان چڑھنے والے بچے ہمارے بچوں جیسے نہیں تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایسے بچے کا بھی پتہ چلتا ہے کہ چھ سات سال کی عمر میں قرآن کریم کا بہت سا حصہ یاد کر لیا تھا اور لوگوں کی امامت کا فریضہ سر انجام دیتا تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302) (3)۔ اصلاحی صاحب نے الزام لگایا ہے کہ ان کے منہ میں یہ بات ڈالی جا سکتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ اس روایت کی سند میں ابن شہاب زہری نہیں ہیں جو ان کے حلق کا کانٹا ہے، بصورت دیگر انھیں موردِ الزام ٹھہرادیا جاتا کہ انھوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مستشرقین و ملحدین نے مہر نبوت کا انکار اصلاحی صاحب کے منہ میں ڈالا ہے جسے انھوں نے وقت ملتے ہی اگل دیا ہے۔ (3)۔ مہر نبوت کا مشاہدہ کرنے والے تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جن کی تفصیل یہ ہے حضرت سائب بن یزید ؓ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث:190) اُم خالد بنت خالد ؓ ، جابر بن سمرہ ؓ (صحیح البخاري، الجہاد والسیر، حدیث: 3071) عبد اللہ بن سرجس ؓ (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6088(2346)) قرہ بن ایاس مزنی ؓ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث:4082) رمیثہ بنت عمرو ؓ (مسند أحمد: 329/6) ابو زید عمرو بن اخطب ؓ (مسند أحمد: 340/5) حضرت سلمان فارسی ؓ (مسند أحمد: 438/5) قبیلہ بنی عامر کا طبیب (مسند أحمد: 223/1) نیز امام ترمذی ؒ نے حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت ابو سعید کا بھی حوالہ دیا ہے۔ مہر نبوت کے اثبات کے متعلق محدثین عظام نے اپنی تصانیف میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور امام بخاری ؒ ، امام مسلم ؒ اور امام ترمذی ؒ نے اس پر عنوان بندی کر کے پھر مختلف احادیث سے اسے ثابت کیا ہے۔ علمائے اہل کتاب کے ہاں رسول ﷺ کی یہ امتیازی علامت معروف تھی اس سلسلے میں صرف دو شہادتیں پیش کی جاتی ہیں: (1)۔ رسول الله ﷺ جب اپنے چچا ابو طالب کے ہمرا بغرض تجارت شام کے علاقے میں گئے تو آپ کے ہمراہ قریش کے بڑے بڑے مشائخ بھی تھے، انھیں راستے میں ایک راہب ملا تو اس نے آپ کو اس مہر نبوت سے پہچانا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3620) (2)۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کو ایک راہب نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے، ہدیہ قبول کریں گے اور ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان تینوں علامتوں کا مشاہدہ کیا اور مسلمان ہوئے۔ (مسند أحمد :443/5) اتنے حقائق کے باوجود اگر کہا جائے کہ مہر نبوت کا تصور اصول نبوت اور دین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس کے جواب میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خانہ ساز اور خود ساختہ ’’تدبر‘‘ کے برگ وبار اور فیوض و برکات ہیں۔ یقیناً ان حضرات نے تدبر حدیث کے نام سے انکار حدیث کا جو خار دار پودا کاشت کیا تھا، اب وہ اللہ کے ہاں ان کے کانٹوں کی چبھن ضرور محسوس کر رہے ہوں گے: ( فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا) قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ احادیث پر تدبر فرمانے والوں نے پہلے قرآن کریم کو تدبر کی بھینٹ چڑھایا۔ ان حضرات کی احادیث کے متعلق دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ تفسیر تدبر قرآن جو آٹھ جلدوں اور ساڑھے چار ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ان چار ہزار آٹھ صد ستر صفحات میں گنتی کی کل چالیس احادیث ذکر کی ہیں۔ البتہ جاہلی ادب اور لغت کی باریکیوں کی طرف کافی رجحان ہے۔ انھوں نے مبادی تدبر قرآن میں تفسیر کے چار قطعی اصول بیان فرمائے ہیں: 1۔ ادب جاہلی، 2۔ نظم قرآن، 3۔ تفسیر القرآن، 4۔ سنت متواترہ اس کے بعد ظنی ماخذ کے طور پر احادیث کو قبول کیا گیا ہے، احادیث سے اس قدر بے اعتنائی بڑی معنی خیز ہے۔ نوٹ:۔ مہرنبوت کی ماہیت وکیفیت اور اس کی غایت وحکمت کتاب المناقب میں تفصیل سے بیان ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے اپنے اہل خانہ کو اس پانی سے وضو کرنے کا حکم دیا جو مسواک کرنے کے بعد بچ رہا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالرحمن بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے جعد کے واسطے سے بیان کیا، کہا انھوں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میری خالہ مجھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے، آپ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے وضو کیا اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ پھر میں آپ کی کمر کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو آپ کے مونڈھوں کے درمیان ایسی تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی۔ ( یا کبوتر کا انڈا)
حدیث حاشیہ:
وضو کا بچا ہوا پانی پاک تھا تب ہی تواسے پیا گیا۔ پس جو لوگ آبِ مستعمل کو ناپاک کہتے ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Sa'ib bin Yazid: My aunt took me to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This son of my sister has got a disease in his legs." So he passed his hands on my head and prayed for Allah's blessings for me; then he performed ablution and I drank from the remaining water. I stood behind him and saw the seal of Prophet (ﷺ) hood between his shoulders, and it was like the "Zir-al-Hijla" (means the button of a small tent, but some said 'egg of a partridge.' etc.)