تشریح:
1۔ اس حدیث میں ہے کہ مرد،عورتیں اکٹھے وضو کیا کرتے تھے۔ اس کے لیے لفظ (جميعاً) استعمال ہوا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں: ( كلهم) اس کامطلب یہ ہے کہ سب وضو کرتے تھے۔ اس میں وقت کی رعایت نہیں ہوگی، یعنی سب وضو کرتے تھے، خواہ وقت الگ الگ ہو۔ (معاً) اس لفظ كے اعتبار سے وقت كی رعایت بھی ہوگی، یعنی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ وضو کرلیتے تھے تو ممکن ہے کہ مرد، عورتوں کا مل کروضو کرنا نزول حجاب سے پہلے کا واقعہ ہو یا اس سے وہ مرد عورتیں مراد ہوں جو ایک دوسرے کے محرم ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے میاں بیوی مراد ہوں۔ اس حدیث کا یہ بھی مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ مرد ایک جگہ مل کر وضو کرتے اور عورتیں ان سے علیحدہ ایک جگہ مل کر وضو کرتیں۔ (فتح الباري: 392/1) لیکن ایک روایت میں صراحت ہے کہ سب ایک ہی برتن سے وضو کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 79) لہٰذا یہ آخری مفہوم صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے اس روایت سے بایں طور پر استدلال کیا ہے جب عہد نبوی میں مرد عورتیں اکٹھے وضو کرتےتھے اور برتن بھی ایک ہوتا تھا، اسی میں ہاتھ ڈال کر وضو کیا جاتا تھا، اس موقع پر یہ احتیاط نہیں ہو سکتی کہ مرد، عورتوں کے ہاتھ بیک وقت برتن میں پڑتے ہوں اور اکٹھے ہی برتن سے نکلتے ہوں، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام ایک ہی وقت وضو سے فارغ ہوتے ہوں۔ اگر مرد پہلے فارغ ہو گیا تو بقیہ پانی عورت کے حق میں باقی ماندہ ہوا اور اگر عورت پہلے فوت ہوگئی تو وہ پانی مرد کے لیے باقی بچ رہا۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بقیہ پانی ناقابل استعمال یا ناجائز ہوتا تو عہد رسالت میں ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی۔ جب اجتماعی طور پر کوئی خرابی لازم نہیں آتی توانفرادی طور پر بھی نہیں آنی چاہیے۔ البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 82) محدثین عظام نے اس کے کئی ایک جوابات دیے ہیں جو حسب ذیل ہیں: (الف) ۔ نہی کا تعلق اس پانی سے ہے جو اعضائے وضو سے گرے جسے ماءِ مستعمل کہاجاتا ہے اور اباحت کا تعلق اس پانی سے ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ رہے۔ (ب)۔ نہی تحریم کے لیے نہیں بلکہ کراہت تنزیہی ہے اور اس قسم کی کراہت اباحت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے۔ گویا عورت سے بچا ہوا پانی مرد کے لیے استعمال کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کاجواب یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں طہارت کے سلسلے میں بے احتیاط ہوتی ہیں، اس لیے مردوں کو حکم ہوا کہ وہ عورتوں کا استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال نہ کریں۔ اس میں عام طبقوں کی رعایت کی گئی ہے، لہٰذا اجتماعی اور انفرادی حالت کا فرق برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر مرد عورت اجتماعی طور پر وضو کریں تو کسی کو ناگواری نہیں ہوتی، لیکن اگر عورت پانی بچا دے تو مرد کو اس کے استعمال کرنے میں گھن محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ایک جگہ کھانا کھانے میں کسی کوتکلیف نہیں ہوتی، لیکن کسی کا بقیہ کھانا تناول کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ اس بنا پر نہ اجتماعی طور پر بیک وقت اکٹھے وضو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور نہ عورت کو مرد کے بقیہ پانی کے استعمال ہی سے روکا گیا ہے، بلکہ صرف مرد کوعورت کے باقی چھوڑے ہوئے پانی کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اس میں عام طبیعتوں کے رجحان کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ شریعت وساوس کا سد باب کرنا چاہتی ہے تاکہ عبادت شرح صدر سے ہو۔ واللہ أعلم۔