تشریح:
(1) اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں دن کے وقت قصداً صحبت کی تھی کیونکہ بھول کر ایسا کرنے والا بالاتفاق گناہ گار نہیں۔ (2) جلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس گناہ کی بنا پر وہ قیامت کے دن آگ میں جلے گا۔ اس روایت سے امام مالک نے استدلال کیا ہے کہ رمضان میں جماع سے روزہ توڑنے والے کے ذمے صرف ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، دو ماہ کے روزے یا غلام کو آزاد کرنا نہیں، لیکن اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس حدیث میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’گردن آزاد کرو۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: ’’ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔‘‘ اس نے عرض کی: میرے پاس کچھ نہیں۔ اگرچہ اس روایت میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (فتح الباري:208/4) واضح رہے کہ کفارے کی ترتیب یہ ہے: ایک گردن آزاد کی جائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا جائے۔ یہ کفارہ اس شخص کے ذمے ہے جو روزے کی حالت میں دانستہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔ دانستہ کھانے پینے سے روزہ توڑنے پر یہ کفارہ نہیں کیونکہ حدیث مباشرت کے متعلق ہے، کھانے پینے کو مباشرت پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ عبادات میں قیاس نہیں چلتا۔ اگرچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے یہ کفارہ بتایا لیکن یہ روایت مجمل ہے جسے دیگر روایات نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے مباشرت کر کے روزہ توڑا تھا۔ (فتح الباري:211/4) البتہ بھول کر مباشرت کرنے پر کوئی کفارہ یا قضا نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر رمضان میں روزہ کھول لے تو اس پر قضا اور کفارہ نہیں ہے۔ (المستدرك للحاكم:430/1)