تشریح:
(1) اس عنوان اور اس سے پہلے عنوان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پہلے عنوان سے مقصود یہ تھا کہ مفلسی اور تنگ دستی سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا اور اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ کیا مفلس کو اس صدقے کے مال سے کفارے کے طور پر تصرف کرنے کا حق ہے یا عام صدقے کے اعتبار سے؟ ہمارے نزدیک اسے بعد میں کفارہ دینا ہو گا اور اس مال میں تصرف صدقے کے اعتبار سے ہے۔ (2) اس میں اختلاف ہے کہ ایسے انسان کو کفارے کے ساتھ خراب کردہ روزے کی قضا دینی ہو گی یا نہیں، امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک قضا ضروری نہیں۔ امام اوزاعی نے کہا ہے: اگر کفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے تو قضا ضروری نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا کفارہ دے تو قضا لازم ہے، البتہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ایک دن کا روزہ بھی رکھو۔‘‘ اگرچہ انفرادی طور پر ان روایات میں کمزوری ہے لیکن اجتماعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ضرور ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:220/4) سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اس کی جگہ ایک دن کا روزہ رکھو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث:1671) سنن ابی داود کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’ایک دن کا روزہ رکھو اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصوم، حدیث:2393) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران روزہ میں جماع کرنے سے کفارہ اور قضا دونوں لازم ہیں۔ (3) روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ آدمی آیا تو اپنے بال نوچ رہا تھا اور سینہ کوبی کر رہا تھا، نیز وہ اپنے سر پر مٹی بھی ڈال رہا تھا اور اپنے رخسار پیٹ رہا تھا۔ یہ تمام افعال شدت ندامت کی وجہ سے تھے، اس کے علاوہ مصیبت کے وقت بال نوچنے اور رخسار پیٹنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباري:210/4)