تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت جابر ؓ کو بے ہوشی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5651) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اور دونوں قبیلہ بنوسلمہ کے ہاں ان کی تیمارداری کے لیے پیدل گئے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577) علامہ کرمانی نے اِغماء اور غشی کو ایک معنی میں لکھا ہے۔ (شرح الکرماني: 41/2) لیکن ان دونوں میں بایں طورفرق ہے کہ غشی ایک مرض کا نام ہے جو اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتی ہے، اور یہ اغماء سے کم درجہ ہوتی ہے۔ اغماء میں عقل مغلوب ہوجاتی ہے جبکہ دیوانگی یا جنون میں عقل مسلوب ہوجاتی ہے۔ نیند کے وقت عقل مسلوب نہیں ہوتی بلکہ مستور ہوتی ہے۔ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض سابق باب کی تائید ہے کہ ماء مستعمل پاک ہے۔ اگرپاک نہ ہوتا تورسول اللہ ﷺ اسے حضرت جابر ؓ پر کیوں چھڑکتے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی بھی ہو سکتا ہے جو وضو کرتے وقت استعمال ہوا جسے ماءِ متقاطر کہتے ہیں اور وہ پانی بھی مراد ہوسکتا ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا۔ لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ماءِ متقاطر مراد ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7309) ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر اس پانی کو مجھ پر چھڑکا۔ (سنن أبي داود، الفرائض، حدیث: 2886)
2۔ عام طور پر کلالہ کا اطلاق اس میت پر ہوتا ہے جس کے اصول وفروع میں سے کوئی نہ ہو، یعنی اس کی اولاد بھی نہ ہو اور نہ باپ دادا ہی میں سے کوئی زندہ ہو۔ مجازی طور پر میت کے وارث جو بے سہارا ہوں انھیں بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں کلالہ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میری وارث میری ہمشیرگان ہیں جو بے سہارا ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ترکے کو بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوئے: (الف)۔ رسول الله ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے بیماری وغیرہ دورہوجاتی تھی۔ (ب)۔ بزرگوں کے دم وغیرہ سے بھی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ (ج)۔ بیماروں کی تیمارداری کرنا بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔ (د)۔ بڑوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں کی تیمارداری کریں، ایساکرنا مسنون ہے۔
3۔ آیت میراث سے مراد: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ﴾ سے لے کر﴿وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴾ تک ہے۔ جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الفرائض کے آغاز میں بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾ ’’اگر کوئی موروث مرد یا عورت کلالہ ہواور اس کی ایک(اخیافی) بہن یا بھائی ہوتوان دونوں میں سے ہرایک کا چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ کلالہ کے متعلق یہ وضاحت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کرنے پر نازل ہوئی تھی۔ اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کی مذکورہ حالت کے پیش نظر سورہ نساء کی آخری آیت نازل ہوئی تھی، لیکن راجح بات امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)