Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
42. Chapter: Rinsing one's mouth and putting water in one's nose and cleaning it by blowing the water out with a single handful of water
باب: ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Rinsing one's mouth and putting water in one's nose and cleaning it by blowing the water out with a single handful of water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
194.
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور ان کو دھویا، پھر دھویا۔ یا (یوں کہا کہ) ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار ایسا کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو بار دھویا اور سر پر مسح کیا آگے اور پیچھے دونوں طرف سے۔ اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کہا: رسول اللہ ﷺ اس طرح وضو کیا کرتے تھے۔
تشریح:
1۔ وضو کرتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی دوصورتیں ہیں: (1)۔ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے۔ اس صورت کو وصل کہتے ہیں۔ 2۔ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیا جائے، اسے فصل کہا جاتا ہے۔ بعض ائمہ کرام کے نزدیک وصل جائز اور فصل افضل ہے، جیساکہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے تحت امام شافعی ؒ کا موقف بیان کیا ہے کہ ان کے نزدیک فصل کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ (سنن الترمذي، الطھارة، حدیث: 28) امام بخاری ؒ اس عنوان سے یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وصل افضل ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ عمل منقول ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں (من غرفة واحدة) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الطھارة، حدیث: 199) ان الفاظ کی موجودگی میں اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا کام ایک ہاتھ سے سرانجام دیا، برخلاف چہرے وغیرہ کے کہ ان میں دونوں ہاتھ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ توجیہ اس لیے بھی غلط ہے کہ ابوداؤد میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ایک ہی پانی سے ہوتا، چنانچہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ انھوں نے یہ دونوں کام ایک ہی دفعہ پانی لے کر کیے۔ ( سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 113) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح وضو کرنے کی صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 137) واضح رہے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ایک حدیث میں ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 139) لیکن اس روایت کو امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے، نیز حافظ ابن قیم زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وضو کا طریقہ یہ تھا کہ آپ پانی کا ایک چلو لیتے آدھا پانی منہ میں اور باقی آدھا ناک میں ڈالتے۔ ( زاد المعاد: 192/1) 2۔ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا۔ (باب اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ) ’’لوگوں کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو استعمال میں لانا۔‘‘ بچے ہوئے پانی سے مراد برتن میں بچا ہوا پانی بھی ہوسکتا ہے اور دوران وضو میں اعضاء سے ٹپکنے والا پانی بھی ہوسکتا ہے۔ اس عنوان میں بھی امام بخاری ؒ نے اس مناسبت کو برقرار رکھا ہے۔ اس سے ناک میں پانی ڈالا جائے گا تو ظاہر ہے کہ کلی کرنے کے بعد جو پانی ہاتھ میں بچا ہے، اسی سے ناک میں پانی ڈالنے کا عمل سرانجام دیاجائے گا، گویا استعمال شدہ پانی دوبارہ کام میں لایا گیا ہے۔ اس انداز سے باب سابق کے ساتھ اس کا تعلق بھی ظاہر اور واضح ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
191
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
191
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
191
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
191
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے برتن سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور ان کو دھویا، پھر دھویا۔ یا (یوں کہا کہ) ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار ایسا کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دو، دو بار دھویا اور سر پر مسح کیا آگے اور پیچھے دونوں طرف سے۔ اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کہا: رسول اللہ ﷺ اس طرح وضو کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ وضو کرتے ہوئے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی دوصورتیں ہیں: (1)۔ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے۔ اس صورت کو وصل کہتے ہیں۔ 2۔ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیا جائے، اسے فصل کہا جاتا ہے۔ بعض ائمہ کرام کے نزدیک وصل جائز اور فصل افضل ہے، جیساکہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے تحت امام شافعی ؒ کا موقف بیان کیا ہے کہ ان کے نزدیک فصل کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ (سنن الترمذي، الطھارة، حدیث: 28) امام بخاری ؒ اس عنوان سے یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ وصل افضل ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے یہ عمل منقول ہے۔ اس روایت کے بعض طرق میں (من غرفة واحدة) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الطھارة، حدیث: 199) ان الفاظ کی موجودگی میں اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا کام ایک ہاتھ سے سرانجام دیا، برخلاف چہرے وغیرہ کے کہ ان میں دونوں ہاتھ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ توجیہ اس لیے بھی غلط ہے کہ ابوداؤد میں یہ الفاظ مروی ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ایک ہی پانی سے ہوتا، چنانچہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ انھوں نے یہ دونوں کام ایک ہی دفعہ پانی لے کر کیے۔ ( سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 113) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح وضو کرنے کی صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 137) واضح رہے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کے لیے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ایک حدیث میں ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 139) لیکن اس روایت کو امام نووی ؒ اور حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے، نیز حافظ ابن قیم زادالمعاد میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے وضو کا طریقہ یہ تھا کہ آپ پانی کا ایک چلو لیتے آدھا پانی منہ میں اور باقی آدھا ناک میں ڈالتے۔ ( زاد المعاد: 192/1) 2۔ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا۔ (باب اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ) ’’لوگوں کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو استعمال میں لانا۔‘‘ بچے ہوئے پانی سے مراد برتن میں بچا ہوا پانی بھی ہوسکتا ہے اور دوران وضو میں اعضاء سے ٹپکنے والا پانی بھی ہوسکتا ہے۔ اس عنوان میں بھی امام بخاری ؒ نے اس مناسبت کو برقرار رکھا ہے۔ اس سے ناک میں پانی ڈالا جائے گا تو ظاہر ہے کہ کلی کرنے کے بعد جو پانی ہاتھ میں بچا ہے، اسی سے ناک میں پانی ڈالنے کا عمل سرانجام دیاجائے گا، گویا استعمال شدہ پانی دوبارہ کام میں لایا گیا ہے۔ اس انداز سے باب سابق کے ساتھ اس کا تعلق بھی ظاہر اور واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ (وضو کرتے وقت) انھوں نے برتن سے (پہلے) اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انھیں دھویا۔ پھر دھویا۔ (یا یوں کہا کہ) کلی کی اور ناک میں ایک چلو سے پانی ڈالا۔ اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا، پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا۔ اگلی جانب اور پچھلی جانب کا اور ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح ہوا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ شک امام بخاری کے استاد شیخ مسدد سے ہوا ہے۔ مسلم کی روایت میں شک نہیں ہے۔ صاف یوں مذکور ہے کہ اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا پھر اسے نکالا اور کلی کی حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Yahya (RA): (on the authority of his father) ' Abdullah bin Zaid (RA) poured water on his hands from a utensil containing water and washed them and then with one handful of water he rinsed his mouth and cleaned his nose by putting water in it and then blowing it out. He repeated it thrice. He, then, washed his hands and forearms up to the elbows twice and passed wet hands over his head, both forwards and backwards, and washed his feet up to the ankles and said, "This is the ablution of Allah's Apostle."