تشریح:
(1) اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا بے سود اور لاحاصل ہے، اس کا کوئی ثواب نہیں۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر میں اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو روزہ رکھنے والوں کو اجازت نہیں کہ وہ اس پر زبان طعن دراز کریں کیونکہ روزہ نہ رکھنے والا شرعی رخصت پر عمل پیرا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو شرعی رخصت پر عمل کرنے سے منع کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ (البقرة185:2) ’’جو شخص بیمار ہو یا دوران سفر میں ہو تو وہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں دوسرے دنوں سے اس گنتی کو پورا کر لے۔‘‘ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر دوران سفر میں روزہ رکھنے سے انسان کو انتہائی تکلیف سے دوچار ہونا پڑے تو یہ اس کے لیے قابل ملامت عیب ہے اور جو اس حالت کو نہ پہنچے تو اس کے لیے روزہ رکھنا یا چھوڑ دینا باعث عیب نہیں۔ صحیح مسلم میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جنگ پر جاتے، اس دوران میں کوئی بھی روزے دار، دوسروں کو ملامت نہ کرتا اور نہ روزہ ترک کرنے والا ہی دوسروں پر عیب لگاتا۔ جسے روزہ رکھنے کی ہمت ہوتی وہ روزہ رکھ کر اچھا کام کرتا اور جو اپنے اندر کمزوری محسوس کرتا وہ اسے چھوڑ کر اچھا کام کرتا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2618(1116)) (3) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس سلسلے میں اختلاف کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ (فتح الباري:237/4)