تشریح:
(1) اس حدیث میں ناسخ آیت کو متعین نہیں کیا گیا، البتہ طبری کی روایت کے مطابق اس کے بعد والی آیت ناسخ قرار دی گئی ہے۔ سنن بیہقی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ روزہ رکھنے سے زیادہ مانوس نہیں تھے کیونکہ وہ مہینے میں صرف تین روزے رکھنے کے عادی تھے، اس بنا پر ان پر ایک ماہ کے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث تھے، پھر انہیں رخصت تھی کہ اگر کوئی کسی مسکین کو روزہ رکھوا دے تو وہ خود اسے ترک کر دے، پھر اس رخصت کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:200/4) (2) حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے۔ وہ فرماتے ہیں: یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4505) یعنی ان کے نزدیک يُطِيقُونَهُ کے معنی ’’عدم استطاعت‘‘ کے ہیں۔ اس مقام پر اس فعل میں سلب ماخذ کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ واللہ أعلم