Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The passing of wet hands over the head once only (while performing ablution))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
195.
حضرت عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انھوں نے عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور لوگوں کے سامنے وضو کیا۔ (پہلے) انھوں نے برتن کو جھکایا اور (پانی لے کر) دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی کے تین چلوؤں سے تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اسے صاف کیا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی لے کر تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دوبار دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور سر پر آگے اور پیچھے دونوں طرف سے مسح کیا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہی روایت موسیٰ نے وہیب سے بیان کی تو کہا کہ سر پر ایک بارمسح کیا۔
تشریح:
مسحِ راس کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے انھیں تین، تین بار دھونے کی تصریح احادیث سے ثابت ہے لیکن جن اعضاء پر مسح کیا جاتا ہے ان میں بھی تثلیث برقرار رہنی چاہیے، کیونکہ وضو ایک طہارت حکمیہ ہے، اس میں اعضائے مغسولہ اور اعضائے ممسوحہ میں فرق روا نہیں۔ لیکن امام بخاری ؒ نص کے مقابلے میں قیاس کو نہیں مانتے۔ ان کا موقف ہے کہ مسح میں تکرار نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر مسح کے وقت اقبال وادبارسے تکرار معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ تکرار مسحات نہیں بلکہ تکرار حرکات ہے۔ مسح ایک ہی مرتبہ ہے، اگرچہ اس کی حرکات دو ہیں۔ بعض حضرات نے درج ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مسح تین مرتبہ ہے۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے وضو تین تین بارکیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 230) لیکن اس روایت میں اجمال ہے جس کی وضاحت دوسری روایات سے ہوتی ہے جن میں صراحت ہے کہ مسح راس میں تکرار نہیں۔ اس بنا پرتین بار کے الفاظ کو اکثر ارکان وضو سے متعلق سمجھنا ہوگا یا دھوئے جانے والے اعضاء مراد ہیں۔ امام ابوداؤد ؒ وضو سے متعلقہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو سے متعلقہ روایات عثمان جو بالکل صحیح ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 108) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے وہ ایک ہی بار مسح کرناہے، تاہم تین مرتبہ مسح کرنے والی روایت کو اگر کبھی کبھی پرمحمول کرلیا جائے توان میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا، کیونکہ سنداً وہ روایت بھی صحیح یا حسن ہے۔ (تمام المنة للألباني رحمة اللہ علیه ص :91)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
192
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
192
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
192
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
192
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عمرو بن ابی حسن سے روایت ہے، انھوں نے عبداللہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور لوگوں کے سامنے وضو کیا۔ (پہلے) انھوں نے برتن کو جھکایا اور (پانی لے کر) دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی کے تین چلوؤں سے تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اسے صاف کیا۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور پانی لے کر تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دوبار دھویا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور سر پر آگے اور پیچھے دونوں طرف سے مسح کیا، پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہی روایت موسیٰ نے وہیب سے بیان کی تو کہا کہ سر پر ایک بارمسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
مسحِ راس کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے انھیں تین، تین بار دھونے کی تصریح احادیث سے ثابت ہے لیکن جن اعضاء پر مسح کیا جاتا ہے ان میں بھی تثلیث برقرار رہنی چاہیے، کیونکہ وضو ایک طہارت حکمیہ ہے، اس میں اعضائے مغسولہ اور اعضائے ممسوحہ میں فرق روا نہیں۔ لیکن امام بخاری ؒ نص کے مقابلے میں قیاس کو نہیں مانتے۔ ان کا موقف ہے کہ مسح میں تکرار نہیں ہے۔ اگرچہ بظاہر مسح کے وقت اقبال وادبارسے تکرار معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ تکرار مسحات نہیں بلکہ تکرار حرکات ہے۔ مسح ایک ہی مرتبہ ہے، اگرچہ اس کی حرکات دو ہیں۔ بعض حضرات نے درج ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے کہ مسح تین مرتبہ ہے۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے وضو تین تین بارکیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 230) لیکن اس روایت میں اجمال ہے جس کی وضاحت دوسری روایات سے ہوتی ہے جن میں صراحت ہے کہ مسح راس میں تکرار نہیں۔ اس بنا پرتین بار کے الفاظ کو اکثر ارکان وضو سے متعلق سمجھنا ہوگا یا دھوئے جانے والے اعضاء مراد ہیں۔ امام ابوداؤد ؒ وضو سے متعلقہ روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے وضو سے متعلقہ روایات عثمان جو بالکل صحیح ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک بار ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 108) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو ثابت ہے وہ ایک ہی بار مسح کرناہے، تاہم تین مرتبہ مسح کرنے والی روایت کو اگر کبھی کبھی پرمحمول کرلیا جائے توان میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا، کیونکہ سنداً وہ روایت بھی صحیح یا حسن ہے۔ (تمام المنة للألباني رحمة اللہ علیه ص :91)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید ؓ سے رسول کریم ﷺ کے وضو کے بارے میں پوچھا۔ تو عبداللہ بن زید ؓ نے پانی کا ایک طشت منگوایا، پھر ان (لوگوں) کو دکھانے کے لیے وضو (شروع کیا)۔ (پہلے) طشت سے اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر انھیں تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کی، تین چلوؤں سے تین دفعہ۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور اپنے منہ کو تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے (پھر) سر پر مسح کیا، اس طرح کہ (پہلے) آگے کی طرف اپنا ہاتھ لائے پھر پیچھے کی طرف لے گئے۔ پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے (دوسری روایت میں) ہم سے موسیٰ نے، ان سے وہیب نے بیان کیا کہ آپ نے سر کا مسح ایک دفعہ کیا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایک بار تو وضو میں دھوئے جانے والے ہر عضو کا دھونا فرض ہے۔ دومرتبہ دھونا کافی ہے اور تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔ اسی طرح کلی اور ناک میں پانی ایک چلو سے سنت ہے۔ سر کا مسح ایک بار کرنا چاہییے، دوبار یاتین بار نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Amr bin Yahya (RA): My father said, "I saw Amr bin Abi Hasan asking ' Abdullah bin Zaid (RA) about the ablution of the Prophet (ﷺ). Abdullah bin Zaid (RA) asked for an earthenware pot containing water and performed ablution in front of them. He poured water over his hands and washed them thrice. Then he put his (right) hand in the pot and rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and then blowing it out thrice with three handfuls of water Again he put his hand in the water and washed his face thrice. After that he put his hand in the pot and washed his forearms up to the elbows twice and then again put his hand in the water and passed wet hands over his head by bringing them to the front and then to the back and once more he put his hand in the pot and washed his feet (up to the ankles.)"