تشریح:
1۔ عہد رسالت میں مساجد میں وضو کرنے کا دستورنہیں تھا اور نہ مساجد میں پانی وغیرہ کا انتظام ہی ہوتا تھا، اس لیے جن لوگوں کے مکان قریب تھے وہ تو وضو کرنے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے، اسی (80) سے کچھ زیادہ آدمی باقی رہ گئے، انھوں نے نماز کے لیے وضو کرنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پتھر کا مخضب (لگن یا ٹب) لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک اس میں ڈال دیا۔ پانی میں اس قدر برکت ہوئی کہ انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے۔ اس روایت میں مخضب سے نوع اور (مِن حِجَارَة) سے مادہ کا مسئلہ ثابت ہوا۔ مخضب اگرچہ بڑے برتن کو کہا جاتا ہے، لیکن چھوٹے برتن پر بھی اہل زبان مخضب کا لفظ بول دیتے ہیں، جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ ( فتح الباري: 394/1)
2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی سے صادر نہیں ہوا، یعنی رسول اللہﷺ کے گوشت اور رگ پٹھوں سے پانی کے چشمے پھوٹنے لگے اور آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کا نکلنا بہ نسبت پتھر سے پانی نکلنے کے زیادہ حیران کن ہے جو حضرت موسیٰ کے عصائے مبارک کو پتھر پر مارنے سے جاری ہوا تھا، کیونکہ پتھر سے پانی نکلنا سب کو معلوم ہے، لیکن لحم و دم سے پانی کا پھوٹنا بہت عجیب اور نئی بات ہے۔ اگرچہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کے پانی میں ہونے کی وجہ سے پانی میں خود ہی برکت اوراضافہ ہوا ہو اور دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوا کہ پانی انگلیوں سے نکل رہا ہے، مگر پہلی صورت معجزے کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے، جبکہ آثار واحادیث میں اس کے خلاف کوئی چیز بھی مروی نہیں۔ (فتح الباري: 715/6)
3۔ دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج نے حسب عادت اس معجزہ نبوی سے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اگرچہ کھلے الفاظ میں اس کا اظہارتو نہیں کیا، البتہ احادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے، چنانچہ تدبرحدیث کی آڑ میں اصلاحی صاحب علیہ ما علیہ لکھتے ہیں: ’’ برکت کا میں قائل ہوں۔ انبیاء سے اس طرح کے معجزے ظاہر ہوتے(رہے) ہیں۔ تردد جو ہوتا ہے وہ اس بات میں ہے کہ واقعہ ایک اعجوبہ ہے۔ معجزہ کی حیثیت سے اس کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ دیکھنے والوں کی خاص تعداد ہے۔ لیکن بیان کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں، کوئی اور صاحب اس کو بیان نہیں کرتے اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ( تدبرحدیث: 294/1) دراصل ان حضرات کا طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی کتاب میں کوئی اعتراض اور اس کا جواب دیکھتے ہیں تو اعتراض کو اچھالنا شروع کردیتے ہیں۔ اس مقام کو لیجیے کہ شارح بخاری ابن بطال نے اپنے انداز میں یہ لکھا کہ اس واقعہ کو ایک جم غفیر نے دیکھا، لیکن روایت کرنے والے صرف حضرت انسؓ ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا بھرپور جواب دیا جس کی وضاحت ہم حدیث :169 میں کرآئے ہیں۔ لیکن ان حضرات کا دجل اور فریب ملاحظہ کریں کہ اعتراض نقل کرکے جواب گول کر دیا۔ اسی طرح رسالہ تدبر کی کسی اشاعت میں حدیث افک پر ان حضرات کی طرف سے بڑے’’وزنی‘‘ اعتراضات شائع ہوئے۔ راقم الحروف نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان اعتراضات کو نقل کرکے ایک ایک کا جواب دیا ہے، لیکن ان حضرات کو تواحادیث بخاری میں تشکیک پیدا کرنا مقصود ہے، خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کام لینا پڑے۔ حدیث افک پر ان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کتاب المغازی ’’حدیث افک‘‘ کی شرح میں بیان کیے جائیں گے۔
4۔ حضرت انس ؓ سے مروی یہ معجزہ نبوی دراصل دو واقعات سے متعلق ہے، کیونکہ پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد اورجائے وقوعہ کی تعيین مختلف فیہ ہے، اس لیے ان مختلف روایات کو جمع کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔ حضرت انسؓ سے جب حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی سفر سے متعلق ہے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3574) اور جب حضرت انس ؓ سے قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ مدینہ منورہ میں ظاہر ہوا تھا اور وضو کرنے والوں کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی۔ (فتح الباري: 714/6)