تشریح:
(1) رمضان کے فوت شدہ روزے فورا رکھنے چاہئیں یا انہیں مہلت ملنے پر اٹھا رکھنا چاہیے، نیز وہ مسلسل رکھے جائیں یا متفرق طور پر رکھے جا سکتے ہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متفرق حکم ہے کہ انہیں دوسرے دنوں میں رکھ لیا جائے۔ اس میں مزید کوئی شرط نہیں۔ (2) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر رمضان آنے تک پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے نہ رکھے جائیں تو دوسرے رمضان کے بعد فوت شدہ روزوں کے ساتھ فدیے کے طور پر مساکین کو کھانا بھی کھلایا جائے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں صرف دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کا ذکر ہے، اس میں کھانے وغیرہ کی پابندی نہیں ہے۔ ہمارا رجحان حضرت ابراہیم نخعی کے موقف کی طرف ہے کہ جب دوسرا رمضان آ جائے تو اس کے گزر جانے کے بعد پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے رکھے جائیں اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ ؓ سے متعلق مشغولیت کا ذکر راوئ حدیث حضرت یحییٰ کا قول ہے۔ اس قسم کے الفاظ کو مدرج کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے واقعاتی اعتبار سے انہیں کمزور قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:243/4)