تشریح:
(1) حدیث میں عليه صيام سے مراد نفل روزے نہیں بلکہ ایسے روزے ہیں جو اس پر فرض ہوں، مثلا: ٭ رمضان کے روزے۔ ٭ نذر کے روزے۔ ٭ کفارے کے روزے۔ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے فرض روزے ہوں تو اس کے وارث کو ان روزوں کا اہتمام کرنا ہو گا۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے: وارث اگر چاہے تو روزے رکھے۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ (التلخیص الحبیر:457/6) امام بیہقی "خلافیات" میں لکھتے ہیں: اس مسئلے میں محدثین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح الباری:4/246) (2) بعض حضرات کا موقف ہے کہ وارث، میت کی طرف سے روزے رکھنے کے بجائے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ ان کی دلیل حسب ذیل روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:1757) لیکن یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر قابل حجت نہیں۔ (ضعیف سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث:389) بعض روایات میں ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزہ نہ رکھے۔ (الموطأ للإمام مالك، الصیام:279/1، حدیث:688) اس سے مراد عام نفل روزے ہیں۔