قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّوْمِ (بَابُ حَقِّ الجِسْمِ فِي الصَّوْمِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

1975. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ فَقُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ كُلَّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا فَإِنَّ ذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ فَصُمْ صِيَامَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَلَا تَزِدْ عَلَيْهِ قُلْتُ وَمَا كَانَ صِيَامُ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ نِصْفَ الدَّهْرِ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ بَعْدَ مَا كَبِرَ يَا لَيْتَنِي قَبِلْتُ رُخْصَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

1975.

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔‘‘ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: ’’اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کا روزہ رکھو اور اس پر زیادتی نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کے روزے کیسے تھے؟فرمایا: ’’نصف زندگی۔‘‘ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن عمرو  ؓ جب بوڑھے ہوگئے تو کہا کرتے تھے: کاش! میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت کوقبول کیا ہوتا(تو آج یہ حال نہ ہوتا)۔