تشریح:
(1) اس حدیث میں نفلی عبادت کرتے وقت جسم کا حق بیان کیا گیا ہے۔ اس حق سے مراد واجب نہیں بلکہ رعایت و نرمی ہے، یعنی نفلی روزہ رکھتے وقت جسم کی رعایت کرنی چاہیے اور اس پر سختی نہ کی جائے تاکہ دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے جس عبادت کا التزام کر رکھا تھا، بڑھاپے اور قوت میں کمی کے باعث اس میں کمی آنے لگی، لیکن اس التزام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں خود پر لازم کر لیا تھا، لیکن کف افسوس ضرور ملتے کہ کاش! میں آپ کی عطا کردہ رخصت قبول کر لیتا تو آج مجھے اس قدر سختی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ دراصل صحابۂ کرام ؓ کے لیے وہ حالت چھوڑنا مشکل تھی جس پر رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا: "کاش! میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح شب مزدلفہ سے اجازت مانگ لیتی تو اچھا ہوتا مگر اب اس حالت کو نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ (فتح الباري:280/4) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ بڑھاپے کے وقت یہ پابندی دشوار ہوئی تو کہنے لگے: کاش! میں نے آپ کی اجازت قبول کی ہوتی اور ایک مہینے کے تین روزے رکھنے کی عادت اختیار کرتا لیکن اب مجھ سے اتنے روزے نہیں رکھے جاتے۔