تشریح:
(1) قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ کسی معقول عذر کی وجہ سے نفلی روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، مثلا: مہمان نے میزبان کو قسم دی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائے یا میزبان نے پرتکلف کھانا تیار کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں، مثلا: اگر کوئی کسی کے گھر جاتا ہے اور اہل خانہ اسے "ماحضر" پیش کرتے ہیں تو ایسے حالات میں روزہ توڑنا ضروری نہیں جیسا کہ پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال نفلی روزہ توڑنا یا نہ توڑنا حالات و ظروف پر موقوف ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے لیے تین دعائیں فرمائیں: ٭ اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں برکت عطا فرما۔ ٭ اے اللہ! اس کی عمر لمبی کر۔ ٭ اے اللہ! اسے قیامت کے دن معاف کر دے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد:19/7، طبع دار صادر، بیروت) حضرت انس کہتے ہیں: دو دعاؤں کی قبولیت کو میں نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے، انصار مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار میں ہوں، (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:1982) نیز ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دو دفعہ پھل لاتا تھا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3833) فوت شدہ اولاد کا حدیث میں ذکر ہے اور جو اولاد زندہ رہی وہ ایک سو سے زیادہ تھی، (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) البتہ ایک دعا کے متعلق فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اسے بھی شرف قبولیت عطا کرے گا اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کر دے گا۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6377(2481)) (3) واضح رہے کہ جب حجاج بن یوسف بصرہ آیا تو اس وقت حضرت انس ؓ کی عمر کچھ اوپر اسی برس تھی اور آپ سو برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ (فتح الباري:291/4)