تشریح:
1۔ اس حدیث سے عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بدل جاتی، آپ کا چہرہ انور متغیر ہوجاتا، پھر یہ معاملہ ایک دوبار پیش نہیں آیا بلکہ زندگی میں سینکڑوں مرتبہ آپ کو اس کیفیت سے دوچار ہونا پڑا، اس سے جہاں عظمت وحی کا پتہ چلتا ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وعصمت بھی معلوم ہوتی ہے۔
2۔ اس سوال میں کہ وحی کیسے آتی تھی؟ تین چیزیں آتی ہیں۔ (الف)۔ نفس وحی کی کیفیت۔ (ب)۔ حامل وحی حضرت جبرئیل کی کیفیت- (ج)۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت۔جواب میں ان تینوں چیزوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
3۔ حدیث کے الفاظ :’’وہ مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے‘‘ سے معلوم ہوا کہ وحی الٰہی کلام نفسی کی کوئی صورت نہ تھی کیونکہ کلام نفسی کا حامل دماغی فتور کی وجہ سے’’غیبی باتیں‘‘ کرتا ہے اور اس کو تکلیف ومشقت اور پریشانی اورگھبراہٹ بالکل نہیں ہوتی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غیبی طاقت کے دباؤ اورکلام الٰہی کی گراں باری کی وجہ سے نزول وحی کے وقت پسینے سے شرابور ہوجاتے اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوجاتا۔
4۔ اس حدیث میں وحی کی ان دوصورتوں کو بیان کیا گیا ہے جو عام طور پر آپ کو پیش آتی تھیں۔ ان کے علاوہ کبھی خواب کی صورت میں اور کبھی بذریعہ الہام و القاء بھی وحی آتی اور بسا اوقات حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے اصل روپ میں وحی لے کر تشریف لاتے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے پس پردہ بذات خود کلام فرمانے سے بھی وحی کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ حدیث معراج اس کی صریح دلیل ہے۔
4۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ گھنٹی کی آواز سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت نفرت تھی، ایسے حالات میں نزول وحی کو ایسی آواز سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے؟ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب بایں الفاظ دیتے ہیں کہ جرس(گھنٹی) میں دوچیزیں ہوتی ہیں: ایک موسیقی وترنم جو قابل نفرت ہے دوسری آواز کی شدت وقوت۔ وحی کو جرس کی دوسری صفت سے تشبیہ دی گئی ہے جو قابل نفرت نہیں۔ اسی شدت کی وجہ سے وحی کو’’قول ثقیل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعصابی نظام اس حد تک متاثر ہوتا کہ سخت سردی کے موسم میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے۔
5۔ایک روایت میں ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔ آواز کی یہ کیفیت سامعین کے اعتبار سے تھی، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ آواز گھنٹی بجنے کی طرح ہوتی تھی تاکہ خارجی شوروغل سماع وحی میں دخل انداز نہ ہو۔ (فتح الباري: 19/1)۔
6۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا یقین کے منافی نہیں جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے احیائے موتیٰ کے متعلق سوال کیا تھا، نیز حضرات انبیاء علیہم السلام سے ان پر گزرنے والے احوال و واقعات کے متعلق سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتح الباري: 22/1)