تشریح:
(1) اس حدیث سے قیام رمضان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے انسان کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے نسائی کے حوالے سے لکھا ہے: بعض روایات میں گزشتہ گناہوں کے ساتھ آئندہ گناہوں کی معافی کا بھی ذکر ہے، (سنن الکبرٰی للبیھقي:88/2، حدیث:2512) پھر اس پر اشکال وارد کیا ہے کہ معافی کے لیے گناہوں کا وجود ضروری ہے۔ جب گناہ نہیں ہیں تو معافی کس چیز کی ہے؟ پھر اپنی طرف سے جواب دیا ہے: اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے محفوظ رکھے گا جیسا کہ اہل بدر کے متعلق فرمایا: ’’آج کے بعد تم جو عمل بھی کرو گے میری طرف سے معافی کا اعلان ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آئندہ جو گناہ ہوں گے وہ اللہ کے ہاں معاف شدہ ہیں۔ (فتح الباري:319/4) (3) حدیث کے آخر میں ابن شہاب کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز تراویح کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں تھا، حضرت عمر ؓ نے اسے جاری فرمایا جس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ (4) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ جواب دیا گیا کہ انہیں حضرت ابی بن کعب ؓ باجماعت نماز تراویح پڑھا رہے ہیں تو آپ نے ان کی تصویب فرمائی اور اس اقدام کو مستحسن قرار دیا لیکن یہ روایت مسلم بن خالد کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔ صحیح موقف یہی ہے کہ باقاعدہ نماز تراویح کے لیے جماعت کا اہتمام حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں کیا۔ (فتح الباري:319/4)