تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کی مشروعیت ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اس کی جماعت کا باقاعدہ اہتمام نہیں تھا، وہ اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا فرض ہو جائے اور لوگ اس سے عاجز آ جائیں۔ بعد ازاں جب رسول اللہ ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وجوب کا اندیشہ نہ رہا تو باجماعت تراویح کا اہتمام کر دیا گیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنایا تھا، اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ (2) یاد رہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس فعل کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا کہ ان کے زمانے میں نماز تراویح اس طرح نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اس اعتبار سے ان کے عہد خلافت میں یقینا یہ نیا کام تھا، لیکن فی الحقیقت یہ کام رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کیا جا چکا تھا۔ اسے بدعت کہنے کی یہ ہرگز وجہ نہ تھی کہ حضرت عمر ؓ بدعت کی تقسیم سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتے تھے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک بدعت حسنہ، ایک بدعت سیئہ، جیسا کہ آج بعض حضرات کا موقف ہے۔ شریعت کی نظر میں ہر بدعت ہی گمراہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد بدعت لغوی ہے شرعی نہیں کیونکہ لغت میں بدعت ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جس کی ابتدا پہلی مرتبہ کی گئی ہو جبکہ شرعی بدعت یہ ہے کہ ہر ایسا کام جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ اس روایت میں رکعات تراویح کی تعداد بیان نہیں ہوئی، چنانچہ حضرت امام مالک ؓ نے اس کی تعداد بایں الفاظ بیان کی ہے، حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری ؓ کو نماز تراویح کے لیے تعینات فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ (الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك:105/1) امام مالک ؒ کے ساتھ یحییٰ بن سعید القطان اور امام عبدالعزیز بن محمد بھی اسی تعداد کو بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ مزید تفصیل کے لیے مرعاۃ المفاتیح (2/233) کا مطالعہ مفید رہے گا۔