تشریح:
(1) امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جو نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا وہ بے بنیاد نہ تھا۔ ان احادیث میں اس بنیاد کو بیان کیا گیا ہے جس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے تراویح باجماعت ادا کرنے کی عمارت کھڑی کی۔ (2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔ دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔ رسول اللہ ﷺ اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا: ’’جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ مبادا نماز تم پر فرض ہو جائے۔‘‘ یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث:1129) اس رات رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعات پڑھائیں اسے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائيں گے لیکن آپ مسجد میں نہ آئے، صبح کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمیں آپ کے تشریف لانے کی امید تھی، آپ نے فرمایا: ’’میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض ہو جائیں۔‘‘ (صحیح ابن خزیمة:138/2)