Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To perform ablution from an earthen-ware pot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
202.
عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے چچا (عمرو بن ابی الھسن) وضو کرتے وقت بہت زیادہ پانی بہاتے تھے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے درخواست کی کہ آپ مجھے نبی ﷺ کے وضو سے آگاہ فرمائیں، چنانچہ انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا۔ پھر انہیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اس طشت میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی چلو پانی سے تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کیا۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا، دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو، دو بار دھوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور اس سے اپنے سر کا مسح کیا۔ مسح کے وقت ہاتھوں کو پیچھے لے گئے، پھر آگے لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تشریح:
1۔ اس سے پہلے باب میں بتایا گیا تھا کہ برتن میں ہاتھ ڈال کر وضو اور غسل کیا جاسکتا ہے اس باب میں برتن سے وضو کرنے کا دوسرا طریقہ بتایا گیا ہے کہ کسی برتن سے ہاتھ میں پانی لے کر وضو کیا جاسکتا ہے، اس صورت میں تکرار لازم نہیں آ تی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ تور، طشت سے چھوٹا ہوتا ہے کیونکہ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سونے کے طشت میں سونے کا تور رکھ کر پیش کیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طشت اور تور دونوں الگ الگ برتن ہیں اور تور طشت سے چھوٹا ہوتا ہے۔(فتح الباري: 397/1) لیکن علامہ عینی نے مزید تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس مقام پر تور، ابریق کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی لوٹا یا جگ وغیرہ جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے پانی، جگ وغیرہ میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاري: 561/2) 2۔ایک روایت میں ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ہم نے پیتل کے تور میں پانی پیش کیا۔ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 100) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے برتن کے متعلق کوئی پابندی نہیں،خواہ کسی نوعیت کا ہو یا کسی بھی مادے سے تیار کیا گیا ہو اور وضو کے لیے پانی لینے کی بھی کوئی پابندی نہیں،اس میں ہاتھ ڈال کر بھی پانی لیا جاسکتا ہے اور اسے جھکا کر بھی اس سے پانی حاصل کیا جاسکتاہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
199
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
199
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
199
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
199
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
عمرو بن یحییٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرے چچا (عمرو بن ابی الھسن) وضو کرتے وقت بہت زیادہ پانی بہاتے تھے۔ انہوں نے حضرت عبداللہ بن زید ؓ سے درخواست کی کہ آپ مجھے نبی ﷺ کے وضو سے آگاہ فرمائیں، چنانچہ انہوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا۔ پھر انہیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اس طشت میں ہاتھ ڈال کر ایک ہی چلو پانی سے تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کیا۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا، دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو، دو بار دھوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ میں پانی لیا اور اس سے اپنے سر کا مسح کیا۔ مسح کے وقت ہاتھوں کو پیچھے لے گئے، پھر آگے لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے باب میں بتایا گیا تھا کہ برتن میں ہاتھ ڈال کر وضو اور غسل کیا جاسکتا ہے اس باب میں برتن سے وضو کرنے کا دوسرا طریقہ بتایا گیا ہے کہ کسی برتن سے ہاتھ میں پانی لے کر وضو کیا جاسکتا ہے، اس صورت میں تکرار لازم نہیں آ تی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ تور، طشت سے چھوٹا ہوتا ہے کیونکہ حدیث معراج میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سونے کے طشت میں سونے کا تور رکھ کر پیش کیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طشت اور تور دونوں الگ الگ برتن ہیں اور تور طشت سے چھوٹا ہوتا ہے۔(فتح الباري: 397/1) لیکن علامہ عینی نے مزید تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس مقام پر تور، ابریق کے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی لوٹا یا جگ وغیرہ جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے پانی، جگ وغیرہ میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاري: 561/2) 2۔ایک روایت میں ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ہم نے پیتل کے تور میں پانی پیش کیا۔ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 100) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے برتن کے متعلق کوئی پابندی نہیں،خواہ کسی نوعیت کا ہو یا کسی بھی مادے سے تیار کیا گیا ہو اور وضو کے لیے پانی لینے کی بھی کوئی پابندی نہیں،اس میں ہاتھ ڈال کر بھی پانی لیا جاسکتا ہے اور اسے جھکا کر بھی اس سے پانی حاصل کیا جاسکتاہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان نے، کہا مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ (یحییٰ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میرے چچا بہت زیادہ وضو کیا کرتے تھے (یا یہ کہ وضو میں بہت پانی بہاتے تھے) ایک دن انھوں نے عبداللہ بن زید ؓ سے کہا کہ مجھے بتلائیے رسول اللہ ﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا۔ اس کو (پہلے) اپنے ہاتھوں پر جھکایا۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈال کر (پانی لیا اور) ایک چلو سے کلی کی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر اپنے سر کا مسح کیا۔ تو (پہلے اپنے ہاتھ) پیچھے لے گئے، پھر آگے کی طرف لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لاکر یہاں طشت سے براہِ راست وضو کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Yahya (RA): (on the authority of his father) My uncle used to perform ablution extravagantly and once he asked ' Abdullah bin Zaid (RA) to tell him how he had seen the Prophet (ﷺ) performing ablution. He asked for an earthen-ware pot containing water, and poured water from it on his hands and washed them thrice, and then put his hand in the earthen-ware pot and rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and then blowing it Out thrice with one handful of water; he again put his hand in the water and took a handful of water and washed his face thrice, then washed his hands up to the elbows twice, and took water with his hand, and passed it over his head from front to back and then from back to front, and then washed his feet (up to the ankles) and said, "I saw the Prophet (ﷺ) performing ablution in that way."