تشریح:
1۔ روایت بخاری میں اختصار ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تفصیل بایں الفاظ لکھی ہے کہ حضرت سعد ؓ کوفے کے گورنرتھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب کوفہ گئے اور انھوں نے حضرت سعد کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو انھیں یہ بات کھٹکی۔ انھوں نے اعتراض کیا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو اس پر اطمینان نہ ہوا تو حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ مزید تسلی کے لیے اپنے والد گرامی حضرت عمر ؓ سے پوچھ لینا۔ پھر کسی مجلس میں یہ تینوں حضرات جمع ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو یاد دلایا کہ وہ مسئلہ دریافت کر لو، چنانچہ یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد بالکل درست کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد جب تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو اس پر اعتماد رکھو، دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرو۔ (فتح الباري: 400/1) حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور موزوں پر مسح کرتے تھے، ایساکرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ ابن عمر ؓ نے کہا: اگرچہ انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تب بھی مسح کر لے؟ فرمایا: ہاں۔ (صحیح ابن خزیمة: 93/1)
2۔ حضرت ابن عمر ؓ قدیم الاسلام ہیں، اس کے باجود انھیں مسح علی الخفین کے متعلق اشکال تھا۔ محدثین نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں: (الف)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو دوران سفر میں مسح کرتے دیکھا تھا جیسا کہ کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے۔ (مصنف ابن أبي شیبة :206/1) اس لیے ممکن ہے کہ ابن عمر ؓ موزوں پر مسح کرنے کو سفر کے ساتھ خاص سمجھتے ہوں۔ اس بنا پر جب انھوں نے حضرواقامت میں حضرت سعد ؓ کو مسح کرتے دیکھا تو اعتراض کردیا۔ (ب)۔ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ چند ایک دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ سورہ مائدہ کی آیت وضو کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہو گیا ہو جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت جریر ؓ کے عمل مسح پر اشکال پیش آیا تھا توانھوں نے جواب دیا کہ میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، چنانچہ شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے مسح کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم موزوں پر مسح کرو۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 207/1)
3۔ حدیث کے آخر میں امام بخاری ؓ نے متابعت کے انداز میں ایک تطبیق بھی ذکر کی ہے جسے اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں با سند بیان کیا ہے۔ اس تعلیق میں یکے بعد دیگرے تین تابعی ہیں: 1۔ موسیٰ بن عقبہ ۔2۔ ابوالنضر۔ 3۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمان۔ واضح رہے کہ یہ تعلیق روایت بالمعنی کے طور پر ہے جیسا کہ امام بخاری ؓ نے ’’نحوہ‘‘ کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 400/1)