تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ حدیث کی تشریح کی ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں: ’’لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے اسے اٹھا لیا گیا۔‘‘ حالانکہ شب قدر کو نہیں بلکہ اس کی تعیین اور معرفت کو اٹھا لیا گیا ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد اسے آخری عشرے کی مخصوص راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر اس کی ذات اور وجود کو اٹھا لیا گیا ہوتا تو اسے مخصوص راتوں میں تلاش کرنا چہ معنی دارد؟ (2) محدثین نے امام بخاری ؒ کے اس قسم کے تراجم اور عناویں کو ’’شارحہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کی معرفت اور پہچان کا اٹھایا جانا ہمارے لیے اس لیے بہتر ہے کہ اس اخفا کی وجہ سے کم از کم آخری عشرے کی عبادت ہوتی رہے گی۔ (3) علمائے حدیث نے احادیث کی روشنی میں شب قدر کی کچھ علامات ذکر کی ہیں، چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ شب قدر کی صبح کو سورج بلند ہونے تک اس کی شعاع نہیں ہوتی وہ تھالی کی مانند ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1785(762)) ٭ اس میں جب چاند طلوع ہوتا ہے تو بڑے تھال کے کنارے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2779(1170)) ٭ وہ رات بڑی معتدل ہوتی ہے، اس میں گرمی ہوتی ہے نہ سردی، اس صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:331/3) ٭ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے اور بارش بھی ہوتی ہے، نیز اس رات شیاطین کو شہاب ثابت نہیں مارے جاتے کیونکہ اس رات اتنے فرشتے زمین پر اترتے ہیں کہ شیاطین ان سے دبک جاتے ہیں۔ (فتح الباري:330/4، ومسندأحمد:340/4) ٭ حافظ ابن حجر ؒ نے طبری کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ تمام درخت سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور امام بیہقی کے حوالے سے لکھا ہے: اس رات نمکین پانی میٹھا ہو جاتا ہے لیکن ان روایات کی استنادی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ (فتح الباري:330/4) (4) اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر کی معرفت کا اٹھ جانا لوگوں کے جھگڑنے کی وجہ سے ہوا لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے شب قدر دکھائی جا رہی تھی کہ اچانک مجھے اہل خانہ نے بیدار کر دیا تو میں اسے بھول گیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2768(1166)) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسیان کا سبب اہل خانہ کا آپ کو بیدار کر دینا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ ایسا ہوا ہو یا ایک ہی واقعے میں دو دفعہ نسیان ہو گیا ہو۔ (فتح الباري:340/4) واللہ أعلم