Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To perform ablution with one Mudd of water. (Mudd is practically 2/3 of the kilogram))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
204.
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب غسل فرماتے تو ایک صاع سے پانچ مد تک پانی استعمال کرتے اور ایک مُد پانی سے وضو کر لیتے۔
تشریح:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ پانی پیالے میں ہو یا طشت میں یا کسی بھی برتن میں، لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے جو وضو کے لیے کافی ہو، آپ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ وضو کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا عام معمول تھا کہ ایک مُد پانی سے وضو فرما لیتے تھے، یعنی اکثر طور پر وضو کے لیے پانی کی اتنی مقدارکفایت کرجاتی ہے۔ اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک مُد سے بھی کم پانی سے وضو کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت ام عمارہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایاگیا جس میں دو تہائی مد کے برابر پانی تھا۔ آپ نے اس سے وضو فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 94) واضح رہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق صاع کا وزن 2 کلو100 گرام ہے۔اجناس کے اعتبار سے اس وزن میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ صاع کے متعلق جدید اعشاری نظام کے مطابق اس کا ٹھیک ٹھیک وزن ہم صدقۃ الفطر کے ابواب میں بیان کریں گے۔ وضو اورغسل کے لیے اشخاص و حالات کے پیش نظر پانی کی مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ بہرصورت اس میں اسراف کرنا اور بلاضرورت پانی بہانا درست نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کتاب میں لکھا ہے کہ اہل علم نے وضو میں اسراف کو ناپسند فرمایا ہے اور اس امر کوبھی مکروہ قراردیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو اور غسل کے متعلق جو مقداریں مروی ہیں، وہ سب تقریبی ہیں تجدید نہیں، البتہ اصلاحی صاحب کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مد دو کلو کے لگ بھگ ہے۔ (تدبر حدیث 299/1) کیونکہ ایک مد میں 1۔33 رطل ہوتے ہیں۔ ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے۔ گویا ایک مد میں ایک سو بیس مثقال ہوئے ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اس طرح ایک مد کے 540 ماشے ہوتے ہیں چونکہ ایک تولہ میں بارہ ماشے ہوتے ہیں لہذا بارہ پر تقسیم کرنے سے 45 تولے وزن بنتاہے۔ جو ایک چھٹانک پانچ تولے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا وزن 9 چھٹانک بنتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق 525 گرام وزن بننا ہے۔اصلاحی صاحب کی حساب دانی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ مد کسی صورت میں دو کلو کے لگ بھگ نہیں بنتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
201
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
201
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
201
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
201
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب غسل فرماتے تو ایک صاع سے پانچ مد تک پانی استعمال کرتے اور ایک مُد پانی سے وضو کر لیتے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ پانی پیالے میں ہو یا طشت میں یا کسی بھی برتن میں، لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے جو وضو کے لیے کافی ہو، آپ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ وضو کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا عام معمول تھا کہ ایک مُد پانی سے وضو فرما لیتے تھے، یعنی اکثر طور پر وضو کے لیے پانی کی اتنی مقدارکفایت کرجاتی ہے۔ اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک مُد سے بھی کم پانی سے وضو کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت ام عمارہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایاگیا جس میں دو تہائی مد کے برابر پانی تھا۔ آپ نے اس سے وضو فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 94) واضح رہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق صاع کا وزن 2 کلو100 گرام ہے۔اجناس کے اعتبار سے اس وزن میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ صاع کے متعلق جدید اعشاری نظام کے مطابق اس کا ٹھیک ٹھیک وزن ہم صدقۃ الفطر کے ابواب میں بیان کریں گے۔ وضو اورغسل کے لیے اشخاص و حالات کے پیش نظر پانی کی مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ بہرصورت اس میں اسراف کرنا اور بلاضرورت پانی بہانا درست نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کتاب میں لکھا ہے کہ اہل علم نے وضو میں اسراف کو ناپسند فرمایا ہے اور اس امر کوبھی مکروہ قراردیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو اور غسل کے متعلق جو مقداریں مروی ہیں، وہ سب تقریبی ہیں تجدید نہیں، البتہ اصلاحی صاحب کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مد دو کلو کے لگ بھگ ہے۔ (تدبر حدیث 299/1) کیونکہ ایک مد میں 1۔33 رطل ہوتے ہیں۔ ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے۔ گویا ایک مد میں ایک سو بیس مثقال ہوئے ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اس طرح ایک مد کے 540 ماشے ہوتے ہیں چونکہ ایک تولہ میں بارہ ماشے ہوتے ہیں لہذا بارہ پر تقسیم کرنے سے 45 تولے وزن بنتاہے۔ جو ایک چھٹانک پانچ تولے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا وزن 9 چھٹانک بنتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق 525 گرام وزن بننا ہے۔اصلاحی صاحب کی حساب دانی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ مد کسی صورت میں دو کلو کے لگ بھگ نہیں بنتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا مجھ سے ابن جبیر نے، انھوں نے حضرت انس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول کریم ﷺ جب دھوتے یا (یہ کہا کہ) جب نہاتے تو ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک (پانی استعمال فرماتے تھے) اور جب وضو فرماتے تو ایک مد (پانی) سے۔
حدیث حاشیہ:
ایک پیمانہ عرب میں رائج تھا جس میں ایک رطل اور تہائی رطل آتا تھا، اسے مد کہا کرتے تھے۔ اس حدیث کی روشنی میں سنت یہ ہے کہ وضو ایک مد پانی سے کم سے نہ کرے اور غسل ایک صاع پانی سے کم سے نہ کرے۔ صاع چار مد کا ہوتا ہے اور یک رطل اور تہائی رطل کا ہمارے ملک کے وزن سے صاع سوادو سیر ہوتا ہے اور مد آدھ سیر سے کچھ زیادہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وضومیں دو رطل پانی کافی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ باختلاف اشخاص وحالات یہ مقدار مختلف ہوئی ہے۔ پانی میں اسراف کرنا اور بے ضرورت بہانا بہرحال منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز نہ کیا جائے۔ باب اور روایت کردہ حدیث سےظاہر ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وضو اور غسل میں تعیین مقدار کے قائل ہیں۔ ائمہ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بھی تعیین مقدار کے قائل اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم نوا ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اغاثۃ اللہفان میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان وسواس والے لوگوں کا رد کیا ہے جو وضو اور غسل میں مقدار نبوی کو بنظر تخفیف دیکھتے ہوئے تکثیر ماء پر عامل ہوتے ہیں۔ یہ شیطان کا ایک مکرہے جس میں یہ لوگ بری طرح سے گرفتار ہوئے ہیں اور بجائے ثواب کے مستحق عذاب بنتے ہیں۔ تفصیل کے لیے تہذیب الایمان ترجمہ اغاثۃ اللہفان مطبوعہ بریلی کا ص: 146ملاحظہ کیا جائے۔ اوپر جس صاع کا ذکر ہوا ہے اسے صاع حجازی کہا جاتا ہے، صاع عراقی جو حنفیہ کا معمول ہے وہ آٹھ رطل اور ہندوستانی حساب سے وہ صاع عراقی تین سیرچھ چھٹانک بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں صاع حجازی ہی مروج تھا۔ فخرالمحدثین حضرت علامہ عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ والحاصل انہ لم یقم دلیل صحیح علی ماذہب الیہ ابوحنیفۃ من ان المدرطلان ولذلک ترک الامام ابویوسف مذہبہ واختار ماذہب الیہ جمہور اہل العلم ان المدرطل و ثلث رطل قال البخاری فی صحیحہ باب صاع المدینۃ ومدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبرکتہ و ماتوارث اہل المدینۃ من ذلک قرنا بعدقرن انتہی الی آخرہ۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 59, 60 ) خلاصہ یہ کہ مد کے وزن دورطل ہونے پر جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے کوئی صحیح دلیل قائم نہیں ہوئی۔ اسی لیے حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اولین شاگرد رشید ہیں، انھوں نے صاع کے بارے میں حنفی مذہب چھوڑ کر جمہور اہل علم کا مذہب اختیار فرمالیاتھا کہ بلاشک مدرطل اور ثلث رطل کا ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جامع الصحیح میں صاع المدینہ اور مدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے باب منعقد کیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہی برکت والا صاع تھا جومدینہ میں بڑوں سے چھوٹوں تک بطور ورثہ کے نقل ہوتا رہا۔ حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ المنورہ تشریف لائے اور امام دارالہجرۃ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات فرمائی تو صاع کے بارے میں ذکر چل پڑا۔ جس پر حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے آٹھ رطل والا صاع پیش کیا۔ جسے سن کر حضرت امام مالک رحمہ اللہ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک صاع لے کر آئے اور فرمایاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولہ صاع یہی ہے۔ جسے وزن کرنے پر پانچ رطل اور ثلث کا پایاگیا۔ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اسی وقت صاع عراقی سے رجوع فرماکر صاع مدنی کو اپنا مذہب قرار دیا۔ تعجب ہے کہ بعض علماءاحناف نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے اس واقعہ کا انکار فرمایا ہے۔ حالانکہ حضرت امام بیہقی اور حضرت امام ابن خزیمہ اور حاکم نے اسانید صحیحہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل خود حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے جسے علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی،جلداول، ص: 60 پر بایں الفاظ نقل فرمایا ہے۔ واخرج الطحاوی فی شرح الآثار قال حدثنا ابن ابی عمران قال اخبرنا علی بن صالح وبشربن الولید جمیعا عن ابی یوسف قال قدمت المدینۃ فاخرج الی من اثق بہ صاعافقال ہذا صاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقدرتہ فوجدتہ خمسۃ ارطال وثلث رطل وسمعت این ابی عمران یقول یقال ان الذی اخرج ہذا لابی یوسف ہو مالک ابن انس۔ یعنی حضرت امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ شرح الآثار میں اس واقعہ کونقل فرمایا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے سفر حج کا واقعہ بھی سند صحیح کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ حج کے موقع پر جب مدینہ شریف تشریف لے گئے اور صاع کی تحقیق چاہی تو انصار ومہاجرین کے پچاس بوڑھے اپنے اپنے گھروں سے صاع لے لے کر آئے، ان سب کو وزن کیا گیا توبخلاف صاع عراقی کے وہ پانچ رطل اور ثلث کا تھا۔ ان جملہ بزرگوں نے بیان کیا کہ یہی صاع ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک سے ہمارے ہاں مروج ہے جسے سن کر حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے صاع کے بارے میں اہل مدینہ کا مسلک اختیارفرمالیا۔ علمائے احناف نے اس بارے میں جن جن تاویلات سے کام لیا ہے اور جس جس طرح سے صاع حجازی کی تردید و تخفیف کرکے اپنی تقلید جامد کا ثبوت پیش فرمایا ہے۔ وہ بہت ہی قابل افسوس ہے۔ آئندہ کسی موقع پر اور تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی ان شاءاللہ۔ الحمد للہ کہ عصر حاضرمیں بھی اکابر علمائے حدیث کے ہاں صاع حجازی مع سند موجود ہے۔ جسے وہ بوقت فراغت اپنے ارشد تلامذہ کو سند صحیح کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دیا کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ مرحوم حضرت مولانا ابومحمدعبدالجبار صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم شکراوہ کے پاس بھی اس صاع کی نقل بسند صحیح موجود ہے۔ والحمدللہ علی ذلک۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) used to take a bath with one Saor up to five Mudds (1 Sa'= Mudds) of water and used to perform ablution with one Mudd of water.