تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اسلام لانے کے بعد فتح مکہ سے پہلے نذر مانی تھی، لیکن یہ خیال مبنی بر حقیقت نہیں کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا بلکہ سنن دارقطنی کی روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے شرک کے زمانے میں اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ (فتح الباري:348/4) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب: إذا نذر أو حلف أن لا يكلم إنساناً في الجاهيلة ثم أسلم) ’’جب انسان دور جاہلیت میں نذر مانے یا کسی سے کلام نہ کرنے کی قسم اٹھائے، پھر مسلمان ہو جائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، باب:29) (3) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: نذر اور قسم دور جاہلیت میں بھی منعقد ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو دور جاہلیت کی نذر پوری کرنے کا حکم دیا اور حضرت عمر نے اس نذر کے مطابق عمل کیا۔ اس کے متعلقہ مباحث "کتاب الایمان والنذور" میں بیان ہوں گی۔ (فتح الباري:361/4) بإذن اللہ