تشریح:
(1) اعتکاف کے لیے اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے کیونکہ اس کی طاق راتوں میں شب قدر ہے لیکن یہ ضروری نہیں، اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔ آخری سال رسول اللہ ﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ محدثین نے اس کی کئی ایک وجوہات لکھی ہیں: ٭ چونکہ آپ کو وفات کا علم ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا تاکہ وہ عمر کے آخری حصے میں عبادات میں زیادہ محنت کریں۔ ٭ حضرت جبرئیل ؑ سال میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺؑ سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن وفات کے سال دو مرتبہ دور کیا، اس لیے آپ نے بھی اعتکاف کی مدت بڑھا دی۔ ٭ رسول اللہ ﷺ ایک سال سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تھے، اس لیے آپ نے اس کی تلافی کے لیے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ ٭ بیویوں کے خیمے لگانے کی وجہ سے آپ نے رمضان کا اعتکاف ترک کر دیا تھا اگرچہ ماہ شوال میں اس کی تلافی ہو چکی تھی تاہم اسے مزید پختہ کرنے کے لیے آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر متعدد مرتبہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ہو، یعنی ایک دفعہ سفر کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ قرآن کریم کے دور کرنے کی بنا پر ایسا کیا ہو۔ (فتح الباري:362/4) لیکن حدیث کے الفاظ تعدد کے متحمل نہیں ہیں۔ واللہ أعلم (2) معتکف کی مثال اس غلام جیسی ہے جو اپنے آپ کو اپنے آقا کے آگے ڈال دے، پھر کہے کہ میں یہاں سے ہرگز نہیں جاؤں گی حتی کہ وہ مجھے معاف کر دے اور میرے گناہ بخش دے۔ (عمدةالقاري:289/8)