تشریح:
(1)اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ تجارت ، خریدوفروخت اور کھیتی باڑی بلکہ تمام دنیاوی کاروبار ضروریات زندگی سے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انھیں مباح قرار دیا ہے۔صحابۂ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں انھیں عمل میں لاتے تھے ۔آپ نے ان کے لیے بہترین اصول اور ہدایات دی ہیں اور اس سلسلے میں ہر ممکن ترقی کے لیے رغبت دلائی ہے۔انصارو مہاجرین نے قابل رشک ترقی فرمائی یہاں تک وہ اہل دنیا کے لیے اس میدان میں ایک نمونہ بن گئے۔(2)واضح رہے کہ قریش کا پیشہ تجارت تھا اور اہل مدینہ بیشتر کاشت کار تھے،جب مہاجرین مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انھوں نے اپنے آبائی پیشہ تجارت ہی کو زیادہ پسند کیا۔رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس پیشے پر برقرار رکھا۔