Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To pass wet hands over Khuffain [two leather socks covering the ankles])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
205.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے جب حضرت عمر ؓ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے بھی اثبات میں جواب دیا (اور) فرمایا: جب سعد ؓ تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو کسی دوسرے سے اس کے متعلق مت پوچھا کرو۔ موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ انھیں ابوالنضر نے بواسطہ ابو سلمہ خبر دی کہ حضرت سعد ؓ نے یہ حدیث بیان کی اور حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے ایسا ہی کہا۔
تشریح:
1۔ روایت بخاری میں اختصار ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تفصیل بایں الفاظ لکھی ہے کہ حضرت سعد ؓ کوفے کے گورنرتھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب کوفہ گئے اور انھوں نے حضرت سعد کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو انھیں یہ بات کھٹکی۔ انھوں نے اعتراض کیا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو اس پر اطمینان نہ ہوا تو حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ مزید تسلی کے لیے اپنے والد گرامی حضرت عمر ؓ سے پوچھ لینا۔ پھر کسی مجلس میں یہ تینوں حضرات جمع ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو یاد دلایا کہ وہ مسئلہ دریافت کر لو، چنانچہ یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد بالکل درست کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد جب تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو اس پر اعتماد رکھو، دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرو۔ (فتح الباري: 400/1) حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور موزوں پر مسح کرتے تھے، ایساکرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ ابن عمر ؓ نے کہا: اگرچہ انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تب بھی مسح کر لے؟ فرمایا: ہاں۔ (صحیح ابن خزیمة: 93/1) 2۔ حضرت ابن عمر ؓ قدیم الاسلام ہیں، اس کے باجود انھیں مسح علی الخفین کے متعلق اشکال تھا۔ محدثین نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں: (الف)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو دوران سفر میں مسح کرتے دیکھا تھا جیسا کہ کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے۔ (مصنف ابن أبي شیبة :206/1) اس لیے ممکن ہے کہ ابن عمر ؓ موزوں پر مسح کرنے کو سفر کے ساتھ خاص سمجھتے ہوں۔ اس بنا پر جب انھوں نے حضرواقامت میں حضرت سعد ؓ کو مسح کرتے دیکھا تو اعتراض کردیا۔ (ب)۔ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ چند ایک دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ سورہ مائدہ کی آیت وضو کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہو گیا ہو جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت جریر ؓ کے عمل مسح پر اشکال پیش آیا تھا توانھوں نے جواب دیا کہ میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، چنانچہ شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے مسح کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم موزوں پر مسح کرو۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 207/1) 3۔ حدیث کے آخر میں امام بخاری ؓ نے متابعت کے انداز میں ایک تطبیق بھی ذکر کی ہے جسے اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں با سند بیان کیا ہے۔ اس تعلیق میں یکے بعد دیگرے تین تابعی ہیں: 1۔ موسیٰ بن عقبہ ۔2۔ ابوالنضر۔ 3۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمان۔ واضح رہے کہ یہ تعلیق روایت بالمعنی کے طور پر ہے جیسا کہ امام بخاری ؓ نے ’’نحوہ‘‘ کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 400/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
202
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
202
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
202
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
202
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موزوں پر مسح کرنے کی اہمیت کے پیش نظر مستقل عنوان قائم کیا ہے۔اہل ضلال وبدعت اورخوارج کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔روافض نے بھی اسے ناجائز قراردیاہے۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مجھے کم از کم سترصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق علم ہے ہ وہ مسح (على الخفَّيْن ) کو جائزسمجھتے تھے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منذر کے حوالے سے لکھاہے کہ پاؤں دھونے کی نسبت موزوں پر مسح کرنا افضل ہے۔کیونکہ خوارج وروافض مسح کوناجائز کہتےہیں اور اس میں طعن کرتے ہیں اور جس سنت کو اہل بدعت بُرا خیال کریں اس کا احیا افضل ہے۔البتہ شیخ محی الدین نے کہا ہے کہ مسح کے بجائے پاؤں دھونا افضل ہیں بشرط یہ کہ ترک مسح سنت سے بے رغبتی اور جواز مسح میں شک کے باعث نہ ہو،بعض حفاظ حدیث سے مروی ہے کہ(المسح على الخفَّين)متواتر سنت ہے۔اس کو بیان کرنے والوں کی تعداد اسی(80) سے متجاوز ہے۔عشرہ مبشرہ بھی اس سنت کو بیان کرتے ہیں۔( فتح الباری 399/1۔)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے جب حضرت عمر ؓ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے بھی اثبات میں جواب دیا (اور) فرمایا: جب سعد ؓ تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو کسی دوسرے سے اس کے متعلق مت پوچھا کرو۔ موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ انھیں ابوالنضر نے بواسطہ ابو سلمہ خبر دی کہ حضرت سعد ؓ نے یہ حدیث بیان کی اور حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ سے ایسا ہی کہا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ روایت بخاری میں اختصار ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس کی تفصیل بایں الفاظ لکھی ہے کہ حضرت سعد ؓ کوفے کے گورنرتھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب کوفہ گئے اور انھوں نے حضرت سعد کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو انھیں یہ بات کھٹکی۔ انھوں نے اعتراض کیا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا: میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو اس پر اطمینان نہ ہوا تو حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ مزید تسلی کے لیے اپنے والد گرامی حضرت عمر ؓ سے پوچھ لینا۔ پھر کسی مجلس میں یہ تینوں حضرات جمع ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو یاد دلایا کہ وہ مسئلہ دریافت کر لو، چنانچہ یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد بالکل درست کہتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ سعد جب تم سے کوئی حدیث بیان کریں تو اس پر اعتماد رکھو، دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کرو۔ (فتح الباري: 400/1) حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور موزوں پر مسح کرتے تھے، ایساکرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ ابن عمر ؓ نے کہا: اگرچہ انسان قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آئے تب بھی مسح کر لے؟ فرمایا: ہاں۔ (صحیح ابن خزیمة: 93/1) 2۔ حضرت ابن عمر ؓ قدیم الاسلام ہیں، اس کے باجود انھیں مسح علی الخفین کے متعلق اشکال تھا۔ محدثین نے اس کی دو وجوہات لکھی ہیں: (الف)۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو دوران سفر میں مسح کرتے دیکھا تھا جیسا کہ کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے۔ (مصنف ابن أبي شیبة :206/1) اس لیے ممکن ہے کہ ابن عمر ؓ موزوں پر مسح کرنے کو سفر کے ساتھ خاص سمجھتے ہوں۔ اس بنا پر جب انھوں نے حضرواقامت میں حضرت سعد ؓ کو مسح کرتے دیکھا تو اعتراض کردیا۔ (ب)۔ ممکن ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ چند ایک دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح یہ سمجھتے ہوں کہ سورہ مائدہ کی آیت وضو کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہو گیا ہو جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت جریر ؓ کے عمل مسح پر اشکال پیش آیا تھا توانھوں نے جواب دیا کہ میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، چنانچہ شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے مسح کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم موزوں پر مسح کرو۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 207/1) 3۔ حدیث کے آخر میں امام بخاری ؓ نے متابعت کے انداز میں ایک تطبیق بھی ذکر کی ہے جسے اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں با سند بیان کیا ہے۔ اس تعلیق میں یکے بعد دیگرے تین تابعی ہیں: 1۔ موسیٰ بن عقبہ ۔2۔ ابوالنضر۔ 3۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمان۔ واضح رہے کہ یہ تعلیق روایت بالمعنی کے طور پر ہے جیسا کہ امام بخاری ؓ نے ’’نحوہ‘‘ کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 400/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبدالرحمن بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے والد ماجد عمر ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا (سچ ہے اور یاد رکھو) جب تم سے سعد رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا (کسی) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انھیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے (رسول اللہ ﷺ کی یہ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر ؓ نے (اپنے بیٹے) عبداللہ سے ایسا کہا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ ﷺ بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر ؓ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔ موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوۂ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے۔ بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Sa'd bin Abi Waqqas (RA) said, "The Prophet (ﷺ) passed wet hands over his Khuffs." 'Abdullah bin 'Umar asked Umar about it. 'Umar replied in the affirmative and added, "Whenever Sa'd narrates a Hadith from the Prophet, there is no need to ask anyone else about it."