تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو پگڑی پر مسح کرنے کے اضافے کے پیش نظر بیان کیا ہے۔ موزوں پر مسح کے لیے شرط یہ ہے کہ انھیں پہلے وضو کی حالت میں پہنا گیا ہو، لیکن پگڑی پر مسح کے لیے شرط نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک تنہا پگڑی کا مسح درست نہیں، بلکہ اگر سر کے کچھ حصے پر مسح کر لیا کچھ تکمیل کے طور پر پگڑی پرکیا تو اسے درست قراردیا جائے گا۔ بصورت دیگر نہیں، لیکن جمہور کا یہ موقف محل نظر ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ سے مطلق پگڑی پر مسح کرنا بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ حدیث باب میں ہے۔ پھر عمرو بن امیہ کے علاوہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ سیدنا بلال ؓ اور سیدنا ابو ذر ؓ وغیرہ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي:400/2) اس لیے راجح بات یہی ہے کہ صرف سر کا مسح سر کے بعض حصے اور پگڑی پر مسح اور صرف پگڑی پر مسح تینوں صورتیں جائز ہیں۔ بعض حضرات نے پگڑی پر مسح کے لیے کچھ شرائط ذکر کی ہیں۔ (ا) پگڑی کمال طہارت کے بعد باندھی گئی ہو، جیسا کہ موزوں میں ہے۔ (ب) پگڑی پورے سر کے لیے ساتر ہو۔ (ج) اسے عرب کے طریقے پر باندھا گیا ہو یعنی داڑھی کے نیچے سے لا کر اس کو باندھ دیا گیا ہو جونہ اٹھانے سے اٹھے اور نہ کھولنے سے کھلے، یعنی ایسی صورت ہو جیسے پاؤں پر موزے چڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارےنزدیک عمامے (پگڑی) پر مطلقاً اور مستقلاً مسح درست ہے۔ اس کے لیے جو شرائط ذکر کی گئی ہیں ان کا کتاب و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ اس روایت پر یہ اعتراض کہ حضرت اوزاعی ؒ کے علاوہ اس اضافے کوکوئی دوسرا راوی بیان نہیں کرتا، لہذا اضافہ شاذ ہے۔ اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ امام اوزاعی ؓ ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے جرابوں پر مسح کے متعلق کوئی روایت ذکر نہیں کی۔ واضح رہے کہ دین اسلام کی بنیاد سہولت اور رفع حرج پر رکھی گئی ہے۔ اس کے احکام میں اس قدر آسانی ہے کہ مزید سہولت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جرابوں پر مسح کی سہولت بھی اسی قبیل سے ہے۔ چنانچہ متعدد احادیث میں جرابوں پر مسح کرنے کی رخصت منقول ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین عظام آئمہ دین اور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ حوالے کے طور پر چند احادیث حسب ذیل ہیں: (1)۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ (مسند أحمد: 27/5) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ وضو فرمایا تو جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ میں نے عرض کیا کہ ان پر مسح کرنا جائز ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: کیوں نہیں! یہ بھی موزے ہیں لیکن یہ اون کے ہیں۔ (الکنی والأسماء للدولابي: 181/1) حضرت انس ؓ صحابی اور عربی الاصل ہیں وہ خف کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپالے۔ آپ کی یہ وضاحت معنی کے لحاظ سے نہایت دقیق ہے، کیونکہ ان کے نزدیک لفظ جوربین لغوی وضعی معنی کے لحاظ سے خفین کے مدلول میں داخل ہے اور خفین پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں، لہٰذا جرابوں پر مسح میں بھی کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت انس ؓ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے۔ (محلی ابن حزم: 85/2) فقہائے کرام نے جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق بھاری بھرکم شرائط عائد کر رکھی ہیں جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں. مثلاً وہ اتنی موٹی ہوں کہ ان میں پانی جذب نہ ہوتا ہو وہ پھٹی ہوئی نہ ہوں وغیرہ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک جراب کا نام اور کام باقی ہے اس پر مسح کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کے صحیح و سالم ہونے کی شرط لگانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ امام ثوری ؒ فرماتے ہیں جب تک موزے پاؤں میں رہیں ان پر مسح کرتے رہو، مہاجرین و انصار کے موزے پھٹے پرانے اور پیوند لگے ہوتے تھے۔ (محلی ابن حزم :102/2) اسی طرح جرابیں جب تک گرد و غبار سے بچاؤ اور سردی سے تحفظ کا کام دیتی ہیں ان پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ موٹی ہوں یا باریک، خواہ پھٹی پرانی ہی کیوں نہ ہوں۔
نوٹ: موزے یا جرابوں پر مسح کرنے کا آغاز پہننے کے بعد نہیں بلکہ وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے ہو گا۔