تشریح:
(1) مشتبہ چیزوں سے مراد وہ ہیں جن کی حدیں حلال اور حرام دونوں سے ملتی ہوں۔اس بنا پر کچھ لوگ ان کی حلت وحرمت کا فیصلہ نہ کرسکیں۔فی نفسہ وہ چیزیں مشتبہ نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج کر دین کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کردیا ہے۔پرہیز گاری یہی ہے کہ انسان شکوک وشبہات والی چیزوں سے بھی الگ تھلگ رہے۔اس حدیث کو اکثر محدثین کتاب البیوع میں بیان کرتے ہیں کیونکہ معاملات میں اکثر اشتباہ پڑجاتا ہے،نیز اس کا تعلق نکاح، شکار، ذبیحہ، کھانے اور پینے سے بھی ہے۔(2) اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں: ٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔ اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔یہ حرام بین سے متعلق ہے ۔٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔ اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے ۔اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا تعلق حرام سے ہے تو اس کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا اور اگر حلال سے ہے تو بھی حسن نیت کی بنا پر اس کے چھوڑنے سے اجرو ثواب ملے گا۔ (فتح الباری:369/4)