تشریح:
(1) اس عنوان سے مقصود شبہ اور وسوسے کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے کہ شبہ کو چھوڑ دینا مستحب ہے جبکہ وسوسے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔(2) شبہ کسی قوی یا کمزور دلیل سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے کے سلسلے میں اگر کسی عورت نے گواہی دی تو اسے تسلیم کیا جائے گا کیونکہ خبر دینے والی مسلمان ہے اور مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو شبہ سے بچنے کے لیے فرمایا:’’تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو۔‘‘ اگرچہ ایک عورت کے کہنے سے حتمی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم شبہ کے لیے ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے،اس لیے تقوے کے طور پر اس عورت کو نکاح میں رکھنے سے پرہیز کرنا اچھا ہے۔ وسوسے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص خراسان کا رہنے والا ہے وہ بغداد جائے جبکہ اس کا والد بغداد میں رہ چکا ہوتو وہ بغداد میں شادی کرنے سے اس لیے پرہیز کرے کہ شاید اس کے باپ نے بغداد میں شادی کی ہو اور جس عورت سے یہ خراسانی شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس کے باپ کی بیٹی اور اس کی بہن ہو۔ شریعت میں اس طرح کے وسوسوں کی کوئی حیثیت نہیں۔