Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To pass wet hands over Khuffain [two leather socks covering the ankles])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
206.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مغیرہ ؓ بھی پانی کا برتن لے کر ساتھ ہو گئے۔ جب آپ حاجت سے فارغ ہوئے تو انھوں (مغیرہ ؓ ) نے آپ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو کیا۔ پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا۔
تشریح:
اس حدیث سے ان حضرات کے موقف کی بھی تردید ہوتی ہے جو نزول سورہ مائدہ کو بنیاد بنا کر موزوں پر مسح کرنے کے نسخ کا دعوی کرتے ہیں کیونکہ سورہ مائدہ کا نزول غزوہ مریسیع کے وقت ہوا اور حضرت مغیرہ ؓ کا یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ غزوہ تبوک مریسیع کے بعد پیش آیا۔ اس لیے موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ (فتح الباري:402/1) اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے: حضرت جریر ؓ نے پیشاب کیا، اس کے بعد وضو کیا تو موزوں پر مسح فرمایا۔ بعض حضرات نے اس پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ عمل کرتے دیکھا ہے۔ اعتراض کرنے والوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے تھا۔ اس کے جواب میں حضرت جریر ؓ نے فرمایا میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں، یعنی میں اس آیت وضو کے بعد اسلام لایا ہوں جس کے متعلق تم یہ سمجھ رہے ہو کہ اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں رہی۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156) ایک روایت میں ہےکہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ نے موزوں پر مسح فرمایا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’بھول نہیں گیا بلکہ مجھے میرے رب نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
203
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
203
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
203
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
203
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موزوں پر مسح کرنے کی اہمیت کے پیش نظر مستقل عنوان قائم کیا ہے۔اہل ضلال وبدعت اورخوارج کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔روافض نے بھی اسے ناجائز قراردیاہے۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مجھے کم از کم سترصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق علم ہے ہ وہ مسح (على الخفَّيْن ) کو جائزسمجھتے تھے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منذر کے حوالے سے لکھاہے کہ پاؤں دھونے کی نسبت موزوں پر مسح کرنا افضل ہے۔کیونکہ خوارج وروافض مسح کوناجائز کہتےہیں اور اس میں طعن کرتے ہیں اور جس سنت کو اہل بدعت بُرا خیال کریں اس کا احیا افضل ہے۔البتہ شیخ محی الدین نے کہا ہے کہ مسح کے بجائے پاؤں دھونا افضل ہیں بشرط یہ کہ ترک مسح سنت سے بے رغبتی اور جواز مسح میں شک کے باعث نہ ہو،بعض حفاظ حدیث سے مروی ہے کہ(المسح على الخفَّين)متواتر سنت ہے۔اس کو بیان کرنے والوں کی تعداد اسی(80) سے متجاوز ہے۔عشرہ مبشرہ بھی اس سنت کو بیان کرتے ہیں۔( فتح الباری 399/1۔)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مغیرہ ؓ بھی پانی کا برتن لے کر ساتھ ہو گئے۔ جب آپ حاجت سے فارغ ہوئے تو انھوں (مغیرہ ؓ ) نے آپ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو کیا۔ پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ان حضرات کے موقف کی بھی تردید ہوتی ہے جو نزول سورہ مائدہ کو بنیاد بنا کر موزوں پر مسح کرنے کے نسخ کا دعوی کرتے ہیں کیونکہ سورہ مائدہ کا نزول غزوہ مریسیع کے وقت ہوا اور حضرت مغیرہ ؓ کا یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ غزوہ تبوک مریسیع کے بعد پیش آیا۔ اس لیے موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ (فتح الباري:402/1) اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے: حضرت جریر ؓ نے پیشاب کیا، اس کے بعد وضو کیا تو موزوں پر مسح فرمایا۔ بعض حضرات نے اس پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ عمل کرتے دیکھا ہے۔ اعتراض کرنے والوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے تھا۔ اس کے جواب میں حضرت جریر ؓ نے فرمایا میں تو سورہ مائدہ کے نزول کے بعد مسلمان ہوا ہوں، یعنی میں اس آیت وضو کے بعد اسلام لایا ہوں جس کے متعلق تم یہ سمجھ رہے ہو کہ اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں رہی۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156) ایک روایت میں ہےکہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب آپ نے موزوں پر مسح فرمایا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’بھول نہیں گیا بلکہ مجھے میرے رب نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 156)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد الحرانی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعد بن ابراہیم سے، وہ نافع بن جبیر سے وہ عروہ ابن المغیرہ سے وہ اپنے باپ مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں وہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ (ایک دفعہ) آپ ﷺ رفع حاجت کے لیے باہر گئے تو مغیرہ پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گئے، جب آپ قضاء حاجت سے فارغ ہو گئے تو مغیرہ نے (آپ کو وضو کراتے ہوئے) آپ (کے اعضاء مبارکہ) پر پانی ڈالا۔ آپ ﷺ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughlra bin Shu'ba (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) went out to answer the call of nature and I followed him with a tumbler containing water, and when he finished, I poured water and he performed ablution and passed wet hands over his Khuffs.