تشریح:
1۔ امام حمیدیؒ نے اپنی مسند میں بایں الفاظ اس حدیث کو روایت کیا ہے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا ہم موزوں پر مسح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ ہاں بشرطیکہ انھیں وضو کی حالت میں پہناجائے۔‘‘ (مسند الحمیدی :235/2) اسی طرح امام ابن خزیمہ ؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضرت صفوان بن عسال المرادی نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا جبکہ انھیں باوضو ہو کر پہنا گیا ہو۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسح اس وقت جائز ہو گا جب ان موزوں کو وضو کے بعد پہنا جائے۔ (صحیح ابن خزیمة:96/1) 2۔ مذکورہ حدیث کے مطابق موزوں پر مسح کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاک پاؤں میں پہنے گئے ہوں، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس پاکی اور طہارت کا معیار کیا ہے ؟ ظاہریہ کے نزدیک پاؤں کا ظاہری نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ حکمی نجاست (حدث) سے پاک ہونا ضروری نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاؤں پر کوئی نجاست وغیرہ لگی ہوئی نہیں اور ان پر موزوں کو چڑھا لیا جائے تو ان پر مسح کیا جا سکتا ہے، جبکہ جمہور کے نزدیک مسح کے لیے ضروری ہے کہ موزہ پہنتے وقت پاؤں ظاہری نجاست سے اور حدث سے پاک ہوں۔ پھر جمہور میں اختلاف ہے کہ موزے پہننے کے وقت طہارت کاملہ کی ضرورت ہے یا حدث کے وقت ؟ شوافع کے نزدیک مسح کے لیے ضروری ہے کہ موزے پہنتے وقت طہارت کاملہ ہو، لیکن احناف حدث کے وقت طہارت کاملہ کا ہونا ضروری قراردیتے ہیں۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ اگر کوئی شخص صرف پاؤں دھوکر موزے پہن لیتا ہے اور پھر باقی وضو مکمل کرتا ہے تو ترتیب کے ساقط ہونے کی وجہ سے شوافع کے نزدیک اس شخص کا وضو صحیح نہیں اور نہ موزوں پر مسح ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن احناف کے نزدیک وضو میں ترتیب ضروری نہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک ایسے شخص کا وضو بھی مکمل ہے اور ان موزوں پر مسح کی بھی اجازت ہے۔ لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح کے لیے ضروری ہے کہ مکمل وضو کرکے موزے پہنے جائیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مسافر کو تین دن تین رات اور مقیم کو ایک دن ایک رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی، بشرطیکہ وضو کرے۔ پھر انھیں پہنے۔ ( صحیح ابن خزیمة:1/69) حافظ ابن حجر ؒ نے ’’ فائدہ ‘‘ کا عنوان دے کر موزوں پر مسح کرنے کی ایک جزئی کے متعلق لکھا ہے، اگر مسح کے بعداور مدت مسح پورا ہونے سے پہلے موزے اتاردیے جائیں تو اس کے متعلق تین موقف ہیں: 1۔ جو توقیت کے قائل ہیں ان میں سے امام احمد اور اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس کا وضو ختم ہو چکا ہے، وہ دوبارہ وضو کرے۔ 2۔ کوفہ کے اہل علم امام مزنی، ابو ثور ، امام مالک اور لیث کہتے ہیں (بشرطیکہ زیادہ وقت نہ گزرا ہو) صرف پاؤں دھولیے جائیں دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ حسن بصری اور ابن لیلیٰ کی رائے ہے کہ اس پر پاؤں کا دھونا بھی ضروری نہیں۔ انھوں نے اس کو سرکے مسح پر قیاس کیا ہے کہ اگر کوئی شخص سر پر مسح کرنے کے بعد سر کے بال منڈوادے تو اس پر دوبارہ سر کا مسح کرنا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ قیاس محل نظر ہے۔ (فتح الباري:505/1) یہ قیاس مع الفارق اس لیے ہے کہ مسح کے لیے سر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، خواہ سر پر بال ہوں یا نہ ہوں، موزوں پر مسح کرنا پاؤں دھونے کا بدل ہے، اصل نہیں۔ اس لیے مذکورہ جزئی کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جب موزے اتارے جائیں گے تو وضو باطل ہو جائے گا۔ صرف پاؤں دھونا اس کے لیے کافی نہیں ہو گا، کیونکہ ایسا کرنے سے موالاۃ یعنی یکے بعد دیگرے دھونے کی شرط فوت ہو جاتی ہے۔ واللہ أعلم۔ لیکن حافظ ابن حزم ؒ اور امام ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی شخص نے موزوں پر مسح کرنے کےبعد انھیں اتار دیا تو اس کا وضو صحیح رہے گا۔ اسے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں۔ (محلی ابن حزم :105/2) 4۔ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ موزے اور پگڑی پرمسح کرنے والا اگر ان کو اتاردے یا مدت مسح ختم ہو جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گا اور نہ اس پر دوبارہ سر کا مسح یا پاؤں کا دھونا ہی واجب ہے۔ (الاختیارات: رقم 15) ان حضرات نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت علی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ وضو کیا تو اپنے جوتوں پر مسح کیا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور جوتوں کو اتارکر نماز ادا کی (السنن الکبری للبیهقي:288/1) راقم الحروف کے نزدیک احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے شخص کو دوبارہ وضو کر لینا چاہیے۔ واللہ أعلم۔