تشریح:
1۔ قاضی اسماعیل نے وضاحت کی ہے کہ گوشت کھانے کا یہ واقعہ حضرت ضباعہ بنت زبیر ؓ کے گھر پیش آیا جو رسول اللہ ﷺ کی چچا زاد ہمیشرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر گوشت تناول فرمایا ہو جس کا ذکر آئندہ حدیث (210) میں آرہا ہے (فتح الباري:406/1) امام نسائی ؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق آپ کو نماز کی اطلاع دینے والے حضرت بلال ؓ تھے (سنن النسائي، الطهارة، حدیث :182)
2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کے مقصود کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ جب گوشت کے استعمال سے وضو ضروری نہیں تو اس سے کم درجے کی چیزیں جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی (جیسے ستو وغیرہ) ان کے کھانے سے بدرجہ اولیٰ وضو نہیں ہو گا۔ بکری کے گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ شاید آپ اس سے اونٹ کے گوشت کا استثنا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس میں چکناہٹ اور ایک قسم کی ناگوار سی بو زیادہ ہوتی ہے۔ غالباً اسی بنا پر اس میں کچے اور پختہ کی تمیز نہیں یعنی مطبوخ اور غیر مطبوخ دونوں برا بر ہیں۔ امام احمد ؒ نے اونٹ کا گوشت استعمال کرنے کے بعد وضو کو ضروری قراردیا ہے اور محدثین میں سے امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ( فتح الباري:405/1) امام بخاری ؒ کا لحم الشاۃ کا تذکرہ کرنے کا یہ بھی مقصد ہوسکتا ہے کہ آپ جگہ جگہ عنوانات میں ایسی قید لگا دیتے ہیں جس کا اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن حدیث میں اس کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے قضیہ حدیث کی رعایت کرتے ہوئے بسا اوقات وہ ایسا کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
3۔ ابتدائے اسلام میں آگ کے ذریعے سے تیار کی گئی چیزوں کے استعمال کے بعد وضو کرنے کا حکم تھا، جیسا کہ حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت ابو ہریرہ ؓ اور صدیقہ کائنات ؓ سے مروی احادیث سے پتہ چلتا ہے ان احادیث کا ذکر متعدد کتب حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:787۔788۔789 (352)) حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری حکم یہ تھا کہ آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کرنا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 192) عام محدثین حدیث جابر کے پیش نظر آگ سے تیار شدہ چیز کے استعمال کے بعد وضو کے حکم کو منسوخ قراردیتے ہیں۔ لیکن امام ابو داود ؒ نے حدیث جابر سے نسخ کی متعارف صورت کو مرجوح قراردیا ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے ایک حکم وجوب وضو کا دیا ہواور پھر دوسرا حکم ترک وضو کا ارشاد فرمایا ہو، بلکہ ان کے نزدیک دو واقعات ایک ہی دن میں پیش آئے اور نماز ظہر اور نماز عصر میں دو طرح کا عمل مروی ہوا ہے، انھوں نے خاص طور پر پہلے مفصل حدیث ذکر فرمائی اور اس کے بعد مجمل حدیث کا تذکرہ کیا، پھر فرمایا کہ یہ آخری حدیث پہلی روایت کا اختصار ہے، مفصل حدیث جابر اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روٹی اور گوشت پیش کیا گیا فراغت کے بعد آپ نے وضو کیا اور نماز ظہر ادا کی پھر آپ نے بقیہ کھانا طلب کیا، اسے تناول کرنے کے بعد آپ نے نماز عصر ادا کی اور وضو نہ فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:191) ابن حزم ؒ نے امام ابو داؤد ؒ کے موقف کو ’’قول بالظن ‘‘ قراردیا ہے، پھر '' ظن أکذب الحدیث" کہا ہے، چونکہ اکابر محدثین اس مسئلے کے متعلق متعارف نسخ اور عدم نسخ کی بابت دو مستقل رائے رکھتے ہیں، نسخ کی طرف امام ترمذی ؒ کا رجحان ہے تودوسری طرف امام ابو داود ؒ ہیں۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کر کے اپنے نزدیک راجح مسلک کی نشاندہی کر دی۔ پھر محدثانہ اصول کے مطابق خلفائے ثلاثہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے مختلف روایات منقول ہوں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ترجیح دی جاتی ہے اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے متعلق مختلف ہوں تو خلفائے راشدین کے عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان کے بعد خلفائے ثلاثہ کا عمل پیش کیا ہے، اس میں یہی حکمت پنہاں ہے۔ (فتح الباري:407/1)