Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To pass wet hands over Khuffain [two leather socks covering the ankles])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
207.
حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرنے میں حضرت حرب بن شداد اور ابان بن یزید العطار نے حضرت شیبان بن عبدالرحمٰن کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ موزوں پر مسح کرنے کے اثبات کے لیے متعدد احادیث لائے ہیں، لیکن توقیت مسح یعنی اس کی مدت کے متعلق کوئی حدیث نہیں لائے، حالانکہ جمہور علماء اس کے قائل ہیں صرف امام مالک ؒ کے متعلق ایک قول نقل ہوا ہے کہ انسان جب تک موزے نہ اتارے مسح کرتا رہے ۔ حضرت عمرؓ سے بھی اس جیسا قول نقل ہوا ہے۔ توقیت مسح کے متعلق حضرت علی ؒ اور حضرت صفوان بن عسال ؓ سے مروی احادیث درج ذیل ہیں۔ حضرت شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے موزوں پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: حضرت علی ؓ کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ اس کے متعلق معلومات رکھتے ہیں، کیونکہ وہ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے مسح کی مدت تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 639 (267)) بعض مخصوص حالات یا جنگی ضرورت کے پیش نظر سات روز تک مسح کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ (سنن ابن ماجة، الطهارة، حدیث: 558)1۔ حضرت صفوان بن عسال ؓ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جب ہم وضو کی حالت میں موزے پہن لیں تو تین دن سفر میں اور ایک دن اقامت میں ان پر مسح کر سکتے ہیں۔ (صحیح ابن خزیمة:99/1) ان کے علاوہ ابو بکرہ ؓ سے بھی اس کے متعلق ایک حدیث مروی ہے جس کی تصحیح امام شافعی ؒ وغیرہ نے کی ہے۔ (فتح الباری:405/1) 2۔ یہ بھی واضح رہے کہ موزوں پر مسح کرنے کا جواز وضو کے ساتھ خاص ہے، غسل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی حالت جنابت اور ضرورت غسل میں موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ حضرت صفوان بن عسال مرادی سے مروی حدیث میں اس کی صراحت ہے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے اس پر ایک مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے۔ ’’موزوں پر مسح کی رخصت اس حدث میں ہے جو وضو کا باعث ہو اور جو حدث غسل کا باعث ہو اس میں مسح کرنے کی رخصت نہیں۔‘‘ حضرت زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں حضرت صفوان بن عسال مرادی ؓ کے پاس آیا اور اس سے موزوں پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ تین دن اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنابت میں ایسی اجازت نہ تھی۔ البتہ بول و براز نیند کے وقت یہ رخصت برقرار رہتی (صحیح ابن خزیمة:98/1, 99) 3۔ متابعت میں ذکر کردہ حرب بن شداد کی روایت سنن نسائی (حدیث 119) میں اور ابان بن یزید العطاء کی روایت (مسند أحمد:179/4) میں موصولاً بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباری :402/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
204
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
204
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
204
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
204
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے موزوں پر مسح کرنے کی اہمیت کے پیش نظر مستقل عنوان قائم کیا ہے۔اہل ضلال وبدعت اورخوارج کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔روافض نے بھی اسے ناجائز قراردیاہے۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مجھے کم از کم سترصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق علم ہے ہ وہ مسح (على الخفَّيْن ) کو جائزسمجھتے تھے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منذر کے حوالے سے لکھاہے کہ پاؤں دھونے کی نسبت موزوں پر مسح کرنا افضل ہے۔کیونکہ خوارج وروافض مسح کوناجائز کہتےہیں اور اس میں طعن کرتے ہیں اور جس سنت کو اہل بدعت بُرا خیال کریں اس کا احیا افضل ہے۔البتہ شیخ محی الدین نے کہا ہے کہ مسح کے بجائے پاؤں دھونا افضل ہیں بشرط یہ کہ ترک مسح سنت سے بے رغبتی اور جواز مسح میں شک کے باعث نہ ہو،بعض حفاظ حدیث سے مروی ہے کہ(المسح على الخفَّين)متواتر سنت ہے۔اس کو بیان کرنے والوں کی تعداد اسی(80) سے متجاوز ہے۔عشرہ مبشرہ بھی اس سنت کو بیان کرتے ہیں۔( فتح الباری 399/1۔)
حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کرنے میں حضرت حرب بن شداد اور ابان بن یزید العطار نے حضرت شیبان بن عبدالرحمٰن کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ موزوں پر مسح کرنے کے اثبات کے لیے متعدد احادیث لائے ہیں، لیکن توقیت مسح یعنی اس کی مدت کے متعلق کوئی حدیث نہیں لائے، حالانکہ جمہور علماء اس کے قائل ہیں صرف امام مالک ؒ کے متعلق ایک قول نقل ہوا ہے کہ انسان جب تک موزے نہ اتارے مسح کرتا رہے ۔ حضرت عمرؓ سے بھی اس جیسا قول نقل ہوا ہے۔ توقیت مسح کے متعلق حضرت علی ؒ اور حضرت صفوان بن عسال ؓ سے مروی احادیث درج ذیل ہیں۔ حضرت شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ ؓ سے موزوں پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: حضرت علی ؓ کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ اس کے متعلق معلومات رکھتے ہیں، کیونکہ وہ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ جب ان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لیے مسح کی مدت تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 639 (267)) بعض مخصوص حالات یا جنگی ضرورت کے پیش نظر سات روز تک مسح کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ (سنن ابن ماجة، الطهارة، حدیث: 558)1۔ حضرت صفوان بن عسال ؓ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ جب ہم وضو کی حالت میں موزے پہن لیں تو تین دن سفر میں اور ایک دن اقامت میں ان پر مسح کر سکتے ہیں۔ (صحیح ابن خزیمة:99/1) ان کے علاوہ ابو بکرہ ؓ سے بھی اس کے متعلق ایک حدیث مروی ہے جس کی تصحیح امام شافعی ؒ وغیرہ نے کی ہے۔ (فتح الباری:405/1) 2۔ یہ بھی واضح رہے کہ موزوں پر مسح کرنے کا جواز وضو کے ساتھ خاص ہے، غسل کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی حالت جنابت اور ضرورت غسل میں موزوں پر مسح کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ حضرت صفوان بن عسال مرادی سے مروی حدیث میں اس کی صراحت ہے اور امام ابن خزیمہ ؒ نے اس پر ایک مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے۔ ’’موزوں پر مسح کی رخصت اس حدث میں ہے جو وضو کا باعث ہو اور جو حدث غسل کا باعث ہو اس میں مسح کرنے کی رخصت نہیں۔‘‘ حضرت زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں حضرت صفوان بن عسال مرادی ؓ کے پاس آیا اور اس سے موزوں پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوتے تھے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ تین دن اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنابت میں ایسی اجازت نہ تھی۔ البتہ بول و براز نیند کے وقت یہ رخصت برقرار رہتی (صحیح ابن خزیمة:98/1, 99) 3۔ متابعت میں ذکر کردہ حرب بن شداد کی روایت سنن نسائی (حدیث 119) میں اور ابان بن یزید العطاء کی روایت (مسند أحمد:179/4) میں موصولاً بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباری :402/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری سے نقل کیا، انھیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول کریم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کی متابعت میں حرب اور ابان نے یحییٰ سے حدیث نقل کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ja'far bin 'Amr bin Umaiya Ad-Damri (RA): My father said, "I saw the Prophet (ﷺ) passing wet hands over his Khuffs."