تشریح:
(1) حدیث میں برے ساتھی کو لوہار کی بھٹی سے تشبیہ دی گئی ہے۔بظاہر اس حدیث سے لوہار کی قباحت معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس کی وضاحت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ پیشہ موجود تھا،اس لیے یہ پیشہ اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام بھی لوہے کے پیشے سے منسلک تھے اور وہ اس سے بہترین ہتھیاربنایا کرتے تھے۔(2)امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے عمل جاہلیت سے استدلال کیا ہے کہ اگر یہ پیشہ حرام ہوتا تو مسلمان ہونے کے بعد اس عمل حرام سے واجب شدہ قرض کا مطالبہ نہ کرتے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے جاہلیت کے عمل کی اجرت طلب کی۔ویسے حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد بھی اس پیشے کو اختیار کیے رکھا جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاجارہ میں اسے ثابت کیا۔( صحیح البخاری،الاجارۃ،حدیث:2275)