صحیح بخاری
2. کتاب: ایمان کے بیان میں
14. باب:اس بیان میں کہ جو آدمی کفر کی طرف واپسی کو آگ میں گرنے کے برابر سمجھے، تو اس کی یہ روش بھی ایمان میں داخل ہے۔
باب:اس بیان میں کہ جو آدمی کفر کی طرف واپسی کو آگ میں گرنے کے برابر سمجھے، تو اس کی یہ روش بھی ایمان میں داخل ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Whoever hates to revert to Kufr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
21.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا: جس شخص کو اللہ اور اس کا رسول پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہوں اور جو شخص کسی بندے سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور جو شخص کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح برا سمجھے گویا اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ ان کے موقف کا حاصل یہ ہے کہ تصدیق کے بعد کسی قسم کی اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ معصیت اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کی تردید بایں طورہے کہ ایمان کو طاقت کی ضرورت ہے اور اس کی حلاوت بھی مطلوب ہے۔ یہ دونوں، اعمال کے راستے سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب اعمال میں تفاوت ہوگا تو مراتب حلاوت وطاقت میں بھی اسی نسبت سے تفاوت ہوگا۔ جب ایمان کی طاقت وحلاوت کامدار اعمال ہیں تو یقیناً ان کا ترک ایمان کو بے لطف اور کمزور کردے گا کیونکہ جس چیز میں لذت نہیں ہوتی اس کی طرف رغبت بھی کم ہوتی ہے اور بے رغبتی کا عمل بے جان ہوتا ہے۔ اگر عمل بے جان ہے تو اس کا اثر ایمان کی طاقت پر پڑے گا اور یہ کھلا ضرر ہے۔ 2۔ کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کی دوصورتیں ہیں: (الف) پہلے مسلمان نہ تھا اب اسلام میں داخل ہوا تو اسے آگ میں ڈالے جانے کی طرح کفر کی طرف لوٹنا برا محسوس ہو۔ (ب) پہلے سے مسلمان تھا لیکن اب اعمال اس قدر مزیدار معلوم ہوتے ہیں کہ کفر کے خیال سے بھی بھاگتا ہے۔ 3۔ حلاوت ایمان کے متعلق ایک اور حدیث اسی معنی میں مروی ہے: "ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا، وَبِالإِسْلامَ دِيناً، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً" ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا، جس نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کے مان لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 151(34)) واضح رہے کہ یہ نعمت اس خوش نصیب کو ملتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کردیا ہو اور اس کا نفس مطمئن ہوگیا ہو، اس کا سینہ کھل گیا ہو اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اورخون میں داخل ہوگیا ہو۔ اس قسم کے باکمال خوش نصیب حلاوت ایمانی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
21
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
21
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
21
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
21
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی پا لے گا: جس شخص کو اللہ اور اس کا رسول پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہوں اور جو شخص کسی بندے سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور جو شخص کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح برا سمجھے گویا اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ ان کے موقف کا حاصل یہ ہے کہ تصدیق کے بعد کسی قسم کی اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ معصیت اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کی تردید بایں طورہے کہ ایمان کو طاقت کی ضرورت ہے اور اس کی حلاوت بھی مطلوب ہے۔ یہ دونوں، اعمال کے راستے سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب اعمال میں تفاوت ہوگا تو مراتب حلاوت وطاقت میں بھی اسی نسبت سے تفاوت ہوگا۔ جب ایمان کی طاقت وحلاوت کامدار اعمال ہیں تو یقیناً ان کا ترک ایمان کو بے لطف اور کمزور کردے گا کیونکہ جس چیز میں لذت نہیں ہوتی اس کی طرف رغبت بھی کم ہوتی ہے اور بے رغبتی کا عمل بے جان ہوتا ہے۔ اگر عمل بے جان ہے تو اس کا اثر ایمان کی طاقت پر پڑے گا اور یہ کھلا ضرر ہے۔ 2۔ کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کی دوصورتیں ہیں: (الف) پہلے مسلمان نہ تھا اب اسلام میں داخل ہوا تو اسے آگ میں ڈالے جانے کی طرح کفر کی طرف لوٹنا برا محسوس ہو۔ (ب) پہلے سے مسلمان تھا لیکن اب اعمال اس قدر مزیدار معلوم ہوتے ہیں کہ کفر کے خیال سے بھی بھاگتا ہے۔ 3۔ حلاوت ایمان کے متعلق ایک اور حدیث اسی معنی میں مروی ہے: "ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا، وَبِالإِسْلامَ دِيناً، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً" ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا، جس نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کے مان لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 151(34)) واضح رہے کہ یہ نعمت اس خوش نصیب کو ملتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کردیا ہو اور اس کا نفس مطمئن ہوگیا ہو، اس کا سینہ کھل گیا ہو اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اورخون میں داخل ہوگیا ہو۔ اس قسم کے باکمال خوش نصیب حلاوت ایمانی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس حدیث کو ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس ؓ سے، اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ظاہر ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت فی الحقیقت بیٹھ جائے وہ کفر کوکسی حالت میں برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن اس محبت کا اظہار محض اقرار سے نہیں بلکہ اطاعت احکام اور مجاہدۂ نفس سے ہوتا ہے اور ایسا ہی آدمی درحقیقت اسلام کی راہ میں مصیبتیں جھیل کربھی خوش رہ سکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عادات پاکیزہ اور استقامت یہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ ابھی پیچھے یہی حدیث ذکر ہوچکی ہے۔ جس میں بعد«إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ» کے لفظ نہیں تھے۔ مزید تفصیل کے لیے پچھلے صفحات کا مطالعہ کیاجائے۔ حضرات نواب صدیق حسن خاں فرماتے ہیں: "هذا الحديث بمعنى الحديث المتقدم: (ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد ﷺ رسولا) وذلك أنه لا يصح المحبة لله ورسوله ﷺ حقيقة وحب الآدمي في الله ورسوله ﷺ وكراهة الرجوع إلى الكفر إلا لمن قوى بالإيمان يقينه، واطمأنت به نفسه، وانشرح له صدره، وخالط لحمه ودمه. وهذا هو الذي وجد حلاوته. قال: والحب في الله من ثمرات حب الله." (سراج الوھاج، ص: 36) یعنی یہ حدیث دوسری حدیث ذاق طعم الإيمان الخ ہی کے معنی میں ہے جس میں وارد ہے کہ ایمان کا مزہ اس نے چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا اور یہ نعمت اسی خوش نصیب انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقت ور کردیا ہو اور اس سے اس کا نفس مطمئن ہوگیا اور اس کا سینہ کھل گیا اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اور خون میں داخل ہوگیا۔ یہی وہ خوش نصیب ہے جس نے ایمان کی حلاوت پائی اور اللہ کے لیے اس کے نیک بندوں کی محبت اللہ ہی کی محبت کا پھل ہے۔ پھر آگے حضرت نواب صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ محبت دلی میلان کا نام ہے۔ کبھی یہ حسین وجمیل صورتوں کی طرف ہوتا ہے، کبھی اچھی آواز یا اچھے کھانے کی طرف، کبھی یہ لذت میلان باطنی معانی سے متعلق ہوتی ہے۔ جیسے صالحین وعلماءواہل فضل سے ان کے مراتب کمال کی بنا پر محبت رکھنا۔ کبھی محبت ایسے لوگوں سے پیدا ہوجاتی ہے جو صاحب احسان ہیں۔ جنھوں نے تکالیف اور مصائب کے وقت مدد کی ہے۔ ایسے لوگوں کی محبت بھی مستحسن ہے اور اس قسم کی جملہ خوبیاں اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیﷺکی ذات گرامی میں جمع ہیں۔ آپ کا جمال ظاہر وباطن اور آپ کے خصال حمیدہ اور فضائل اور جمیع المسلمین پر آپ کے احسانات ظاہر ہیں۔ اس لیے آپ کی محبت عین تقاضائے ایمان ہے۔ آگے حضرت نواب مرحوم نے عشق مجازی پر ایک طویل تبصرہ فرماتے ہوئے بتلایا ہے کہ "ومن أعظم مکائد الشیطان مافتن به عشاق صور المرد والنسوان وتلك لعمر اللہ فتنة کبریٰ وبلیة عظمیٰ." الخ۔ ’’یعنی شیطان کے عظیم ترجالوں میں سے ایک یہ جال ہے جس میں بہت سے عشاق مبتلا رہتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی موجودہیں جولڑکوں اور عورتوں کی صورتوں پر عاشق ہوکر اپنی دنیا وآخرت تباہ کرلیتے ہیں اور قسم اللہ کی یہ بہت ہی بڑا فتنہ اور بہت ہی بڑی مصیبت ہے۔‘‘ اللہ ہر مردمسلمان کواس سے محفوظ رکھے۔ (آمین) حضرت امام المفسرین ناصرالمحدثین نواب صاحب مرحوم دوسری جگہ اپنے مشہور مقالہ تحریم الخمر میں فرماتے ہیں: ’’مرض عشق کو شراب وزنا کے ساتھ مثل غنا کے ایک مناسبت خاص ہے۔ یہ مرض شہوت فرج سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مزاج پر شہوت غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری اس شہوت پرست کو پکڑلیتی ہے جب وصال معشوق محال ہوتا ہے یامیسر نہیں آتا تو عشق سے حرکات بے عقلی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا کتب دین میں عشق کی مذمت آئی ہے اور اس کا انجام شرک ٹھہرایا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ اس منحوس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ قصہ زلیخا میں افراط محبت کو بلفظ "شغف حب"تعبیر کیا ہے۔ یہ حرکت زلیخا سے حالت کفر میں صادر ہوئی تھی۔ ہنود میں بھی ظہورعشق عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بخلاف عرب کے کہ وہاں مرد عشاق زن ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قیس لیلیٰ پر فریفتہ تھا۔ اس سے بدتر عشق اہل فرس کا ہے کہ وہ امرد پر شیفتہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم لواط اور اغلام کی ہے۔ جس طرح کہ عورت کی طرف سے عشق کا ظہور ایک مقدمہ زنا ہے۔ جو کوئی اس مرض کا مریض ہوتا ہے وہ شرابی زانی ہو جاتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ عشق بندے کو توحید سے روک کرگرفتار شرک و بت پر ستی کردیتا ہے۔ اس لیے کہ عاشق معشوق کا بندہ ہو جاتا ہے اس کی رضامندی کو خالق کی رضامندی پر مقدم رکھتا ہے۔ یہی اس کی صنم پر ستی ہے۔ کتاب إغاثة اللهفان وکتاب الدواء الکافي اور دیگر رسائل میں آفات ومصائب کو تفصیل وار لکھا ہے اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس شرک شیرین وکفر نمکین سے بچاکر اپنی محبت بخشے اور مجاز سے حقیقت کی طرف لائے۔ حدیث میں آیا ہے: «حُبُّكَ الشيءَ يُعْمي ويُصِمّ» یعنی کسی چیز کی محبت تجھ کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ یہی حال مقلدین جامدین کا ہے جن کا طور طریقہ بالکل ان لوگوں کے مطابق ہے۔ جن کا حال اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾(التوبة: 31) انھوں نے اپنے علماءومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے۔ ائمہ مجتہدین کا احترام اپنی جگہ پر ہے مگر ان کے ہرفتویٰ ہرارشاد کو وحی آسمانی کا درجہ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو افراط وتفریط سے بچائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Whoever possesses the following three qualities will taste the sweetness of faith: 1. The one to whom Allah and His Apostle (ﷺ) become dearer than anything else. 2. Who loves a person and he loves him only for Allah's sake. 3. Who hates to revert to disbelief (Atheism) after Allah has brought (saved) him out from it, as he hates to be thrown in fire".