تشریح:
1۔ اس حدیث سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔ ان کے موقف کا حاصل یہ ہے کہ تصدیق کے بعد کسی قسم کی اطاعت کی ضرورت نہیں اور نہ معصیت اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کی تردید بایں طورہے کہ ایمان کو طاقت کی ضرورت ہے اور اس کی حلاوت بھی مطلوب ہے۔ یہ دونوں، اعمال کے راستے سے حاصل ہوتی ہیں۔ جب اعمال میں تفاوت ہوگا تو مراتب حلاوت وطاقت میں بھی اسی نسبت سے تفاوت ہوگا۔ جب ایمان کی طاقت وحلاوت کامدار اعمال ہیں تو یقیناً ان کا ترک ایمان کو بے لطف اور کمزور کردے گا کیونکہ جس چیز میں لذت نہیں ہوتی اس کی طرف رغبت بھی کم ہوتی ہے اور بے رغبتی کا عمل بے جان ہوتا ہے۔ اگر عمل بے جان ہے تو اس کا اثر ایمان کی طاقت پر پڑے گا اور یہ کھلا ضرر ہے۔
2۔ کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کی دوصورتیں ہیں: (الف) پہلے مسلمان نہ تھا اب اسلام میں داخل ہوا تو اسے آگ میں ڈالے جانے کی طرح کفر کی طرف لوٹنا برا محسوس ہو۔ (ب) پہلے سے مسلمان تھا لیکن اب اعمال اس قدر مزیدار معلوم ہوتے ہیں کہ کفر کے خیال سے بھی بھاگتا ہے۔
3۔ حلاوت ایمان کے متعلق ایک اور حدیث اسی معنی میں مروی ہے: "ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ رَضِيَ بِالله رَبًّا، وَبِالإِسْلامَ دِيناً، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً" ’’اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا، جس نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کے مان لیا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 151(34)) واضح رہے کہ یہ نعمت اس خوش نصیب کو ملتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کردیا ہو اور اس کا نفس مطمئن ہوگیا ہو، اس کا سینہ کھل گیا ہو اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اورخون میں داخل ہوگیا ہو۔ اس قسم کے باکمال خوش نصیب حلاوت ایمانی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔