صحیح بخاری
4. کتاب: وضو کے بیان میں
54. باب: سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
54. Chapter: Ablution after sleep. And whoever considers it unnecessary to repeat ablution after dozing once or twice or after nodding once in slumber
باب: سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Ablution after sleep. And whoever considers it unnecessary to repeat ablution after dozing once or twice or after nodding once in slumber)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
215.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو، اس دوران میں اگر اسے اونگھ آ جائے تو وہ سو جائے تاکہ اس کی نیند پوری ہو جائے کیونکہ اگر کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے لیے استغفار کر رہا ہے یا خود کو بددعا دے رہا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں بلکہ وضو ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب کہ انسان کے عقل وشعور پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونگھ کی حالت میں عمل نماز ختم کردینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اونگھنے والے کو پورا ہوش نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس کی زبان سے ایسا کلمہ نکل جائے جو اس کے حق میں بددعا ثابت ہو۔ لہٰذا عمل نماز کو باقی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اونگھنے سے وضو ٹوٹ گیا اور نماز باطل ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سونے کا حکم دینے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں: (1)۔ سونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، لہٰذا نماز جاری رکھنا عبث ہے۔ (2)۔ بے خبری کی حالت میں نماز کا عمل جاری رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز نہ پڑھنے کے لیے دوسری علت بیان فرمائی ہے کہ مبادا دعا کے بجائے بددعا منہ سے نکل جائے۔ نماز باقی نہ رکھنے کے لیے پہلی علت تو وہ یہاں محقق ہی نہیں، یعنی وضو نہیں ٹوٹا بلکہ باقی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اونگھ یا جھونکے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 2۔ امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی نے اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان کیا ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ایک دفعہ حولاء بنت تویت کے پاس سے گزرے تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ خاتون رات کے وقت لمبا قیام کرتی ہے، جب اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو چھت سے لٹکتی ہوئی رسی میں گردن ڈال دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ نماز اس قدر پڑھی جائے جتنی انسان میں طاقت ہے۔ تھک کراونگھ آنے لگے تو سو جانا چاہیے۔ (مختصر قیام اللیل، ص:133)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
212
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
212
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
212
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
212
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس باب میں تین چیزوں کا حکم بیان کیا گیا ہے1۔ نیند انسانی شعور پر جب غفلت پوری طرح غالب آجائے تو اسے نیند سے تعبیر کیا جاتا ہے2۔اونگھ اس میں آنکھ بند ہو جاتی ہے لیکن فی الجملہ شعور باقی رہتا ہے غفلت طاری نہیں ہوتی اس لیے اونگھنے والا اپنے پاس والے کی بات سن لیتا ہے اور کبھی کبھی سمجھ بھی لیتا ہے3۔جھونکا یہ اونگھ کے اوپر والا درجہ ہے اس میں سر ہلنے لگتا ہے اور ٹھوڑی سینے سے ٹکرانے لگتی ہے۔جھونکے سے پہلے اونگھ کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد نیند کی حدود کا آغاز ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اونگھ کے متعلق تکرار الفاظ کا لحاظ رکھا ہے اور جھونکے میں تکرار نہیں کیونکہ اس کے بعد نیند شروع ہو جاتی ہے نیند چونکہ مظنہ حدث ہے اس لیے جب شعور معطل ہو جائے اور حواس قائم نہ رہیں تو ایسی نیند وضو ٹوٹ جاتا ہے البتہ اونگھنے اور جھونکا آجانے سے وضو ٹوٹتا ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو، اس دوران میں اگر اسے اونگھ آ جائے تو وہ سو جائے تاکہ اس کی نیند پوری ہو جائے کیونکہ اگر کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے لیے استغفار کر رہا ہے یا خود کو بددعا دے رہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں بلکہ وضو ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب کہ انسان کے عقل وشعور پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونگھ کی حالت میں عمل نماز ختم کردینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اونگھنے والے کو پورا ہوش نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس کی زبان سے ایسا کلمہ نکل جائے جو اس کے حق میں بددعا ثابت ہو۔ لہٰذا عمل نماز کو باقی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اونگھنے سے وضو ٹوٹ گیا اور نماز باطل ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سونے کا حکم دینے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں: (1)۔ سونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، لہٰذا نماز جاری رکھنا عبث ہے۔ (2)۔ بے خبری کی حالت میں نماز کا عمل جاری رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز نہ پڑھنے کے لیے دوسری علت بیان فرمائی ہے کہ مبادا دعا کے بجائے بددعا منہ سے نکل جائے۔ نماز باقی نہ رکھنے کے لیے پہلی علت تو وہ یہاں محقق ہی نہیں، یعنی وضو نہیں ٹوٹا بلکہ باقی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اونگھ یا جھونکے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 2۔ امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی نے اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان کیا ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ایک دفعہ حولاء بنت تویت کے پاس سے گزرے تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ خاتون رات کے وقت لمبا قیام کرتی ہے، جب اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو چھت سے لٹکتی ہوئی رسی میں گردن ڈال دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ نماز اس قدر پڑھی جائے جتنی انسان میں طاقت ہے۔ تھک کراونگھ آنے لگے تو سو جانا چاہیے۔ (مختصر قیام اللیل، ص:133)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا مجھ کو مالک نے ہشام سے، انھوں نے اپنے باپ سے خبر دی، انھوں نے عائشہ ؓ سے نقل کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز پڑھتے وقت تم میں سے کسی کو اونگھ آ جائے، تو چاہیے کہ وہ سو رہے یہاں تک کہ نیند (کا اثر) اس سے ختم ہو جائے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے اور وہ اونگھ رہا ہو تو وہ کچھ نہیں جانے گا کہ وہ (خدا سے) مغفرت طلب کر رہا ہے یا اپنے نفس کو بد دعا دے رہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you feels drowsy while praying he should go to bed (sleep) till his slumber is over because in praying while drowsy one does not know whether one is asking for forgiveness or for a bad thing for oneself."