تشریح:
1۔ یہ عنوان قائم کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ پیشاب ناقض وضو ہونے کے ساتھ ساتھ ناپاک اور نجس بھی ہے، لہٰذا بدن اور کپڑوں کی حفاظت ضروری ہے اور اس سے پرہیز نہ کرنا ایک کبیرہ گناہ ہے جو قبر اورآخرت میں عذاب کا باعث ہوسکتا ہے، خواہ یہ اصل کے اعتبار سے کبیرہ ہو، یا اصرار اورعادی ہونے کی وجہ سے کبیرہ بن گیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ دیوار کی جڑ میں نرم جگہ پر پیشاب کیا اور فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو پیشاب کی حاجت ہو تو اس کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:3) اس سے احتیاط کے درج ذیل طریقے ہیں: 1۔ کسی بندش یا روک والی جگہ کا انتخاب کیاجائے، کیونکہ کھلی جگہ پر ہوا پیشاب کا رخ پلٹ سکتی ہے۔2۔ جہاں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھے ادھر ہوا کا رخ نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ آگے سے ہوا پڑنے کی بنا پر کپڑے یا بدن آلودہ ہوسکتا ہے۔ 3۔ پیشاب گرنے کی جگہ نرم ہو تاکہ پیشاب جذب ہوجائے، کیونکہ سخت جگہ پر پیشاب کرنے سے اس کے چھینٹے بدن اور کپڑوں کو ناپاک کرسکتے ہیں۔ 4۔ پیشاب کرتے وقت ڈھلوان کا رخ اگلی جانب ہو کیونکہ پچھلی جانب رخ ہونے سے بدن کے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
2۔ اس حدیث میں یہ اشکال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو ان کے کبیرہ ہونے کی نفی فرمائی، پھر اس کے کبیرہ ہونے کا اثبات فرمایا۔ شارحین نے اس سلسلے میں متعدد تاویلات کی ہیں: (الف)۔ یہ دونوں باتیں فی نفسہ کبیرہ نہ تھیں مگر ان کے عادی اور خوگر ہوجانے نے ان کو کبیرہ بنادیا۔ حدیث کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ (كَانَ) جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو استمرار اور دوام کا فائدہ یتا ہے۔ 1۔ ان گناہوں سے احتراز کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی اور نہ ان سے پرہیز کرنے میں انھیں کسی دقت ہی کاسامنا کرنا پڑتا تھا، اس کے باجود ان سے احتراز نہ کیا گیا۔ اس وجہ سے ان میں سنگینی پیدا ہوگئی۔ 2۔ لوگوں کی نگاہوں میں یہ معمولی گناہ تھے، اس لیے وہ ان سے بچنے کا اہتمام نہ کرتے تھے، مگر اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑے جرم تھے، جیسا کہ واقعہ افک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ﴾ ’’ تم اسے معمولی بات سمجھتے ہو مگر وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔‘‘ (النور:15:24)3۔ جس كبيره کی نفی کی گئی ہے وہ اکبر کے معنی میں ہے، یعنی بڑاگناہ تو ہے مگر قتل عمد کی طرح بہت بڑا نہیں۔ اس طرح نفی واثبات دونوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں پہلے صغیرہ ہی خیال کیا تھا، لیکن اس کے بعد وحی نازل ہوئی کہ یہ چیزیں صغیرہ نہیں بلکہ کبیرہ ہیں۔ اس لیے آپ نے فوراً استدراک فرمایا کہ نہیں بلکہ یہ لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب تھے۔ 5۔ ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ہر جرم کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔ حسی اور شرعی۔ یعنی یہ جرم وجود حسی کے اعتبارسے معمولی نظر آتے تھے مگر شرعی اعتبار سے انتہائی سنگین تھے، کیونکہ کپڑا یا بدن ناپاک ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی، نیز لگائی بجھائی کرنے سے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی شریعت کی نظر میں یہ چیزیں معمولی نہ تھیں جس میں یہ لوگ زندگی بھر مبتلا رہے اور اب انھیں اس پاداش میں عذاب دیاجارہا ہے۔
3۔ کبیرہ، وہ گناہ ہوتا ہے جو دوسرے گناہوں کے لحاظ سے زیادہ قبیح اور شارع کی نظر میں بڑے درجے کی برائی رکھتا ہو اور جس کے ارتکاب پر شریعت میں لعنت،غضب،عذاب کی وعید آئی ہو یا دنیا میں اس کے ارتکاب پر حد لگائی جاسکتی ہو۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ گناہ کا چھوٹابڑا ہونا ایک نسبی امر ہے، لہذا ہر ایسا گناہ جس سے اوپر درجے کا گناہ بھی ہے، وہ اوپر والے کی نسبت سے صغیرہ ہے اور اپنے ماتحت کے اعتبار سے وہی کبیرہ بھی ہے۔ (عمدةالقاري:592/2) اصل بات یہ ہے کہ جس کبیرہ گناہ پر بھی صحیح معنوں میں اللہ کی طرف رجوع ہوجائے وہ صغیرہ جیسا بن جاتا ہے اور جس صغیرہ پر اصرار ومداومت ہو اور اسے صغیرہ خیال کیا جائے ،وہ کبیرہ جیسا بن جاتا ہے،جیسے اگر معمولی چنگاری کو پانی سے نہ بجھایا جائے تو بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کردیتی ہے اور اگربڑے بڑے شعلوں کو پانی سے سرد کردیا جائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔
4۔ یہ حدیث نص صریح ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور عذاب بھی اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے اور جن لوگوں کو زمینی قبر نہیں ملتی ہے ان کے لیے وہی قبر ہے جہاں ان کے ذرات پڑے ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کے لیے کسی برزخی قبر کا وجود ثابت نہیں ہے، جیساکہ بعض فتنہ پرورلوگوں کا خیال ہے۔ اصلاحی صاحب نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب قبر کا انکار کیا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’ قبر میں عذاب ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اس عذاب کا قرآن مجید میں کوئی ذ کر نہیں ہے، اس لیے کہ عالم برزخ میں حساب کتاب نہیں ہوتا۔‘‘ (تدبرحدیث:309/1) درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ان کا رد ہوتا ہے: ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ’’ فرعون اورآل فرعون کو صبح وشام آگ سے سامنے لایاجاتاہے اور جس دن قیامت ہوگی(فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔‘‘ (المؤمن:46:40) اس آیت کریمہ سے واضح طور پرعذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے، نیز رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جواب میں فرمایا: ’’ہاں!قبر کا عذاب حق ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1372) لیکن منکرین، قرآن اور حدیث کی تصریحات کا انکارکرتے ہیں۔ امید ہے کہ احادیث پر تدبر کرنے والوں کو اب عذاب قبر کا ضرور احساس ہو رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
5۔ اس حدیث کے پیش نظر قبروں پر سبزہ لگانا اور ان پر پھول چڑھانا جائز قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ اگرسبزہ لگانا میت کے حق میں تخفیف عذاب کا باعث ہوتا توصراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اسکی ترغیب دیتے۔ آپ نے مردوں کے متعلق ایصال ثواب اور نفع رسانی کے مختلف طریقے بیان فرمائے ہیں لیکن ان میں پھول چڑھانے یا سبزہ لگانے کا عمل کہیں بیان نہیں فرمایا، حالانکہ یہ ایک عام دستیاب سستا اور بے ضرر نسخہ ہے۔ جس سے ہر وقت زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا مگرآپ نے اسے جاری رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازوں کے مفصل حالات سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں، کسی نے بھی اس کی ترغیب نہیں دی۔ صرف حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے عامل ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو قبر پرشاخ رکھنے کی تلقین فرمائی تھی اور بس! دوسرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں ایک صحابی کے عمل کو سنت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ أعلم۔