Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To perform ablution even on having no Hadath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
217.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ (راوی عمرو بن عامر کہتے ہیں) میں نے پوچھا: آپ حضرات (صحابہ) کا کیا معمول تھا؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم میں سے ایک شخص کو اس وقت تک وضو کافی ہوتا تھا جب تک اسے حدث لاحق نہ ہوتا۔
تشریح:
1۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے، اس میں کچھ اضافہ ہے کہ نبی ﷺ وضو سے ہوتے یا بغیر وضو کے ہر حال میں نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے۔ (سنن الترمذي، الطهارة، حدیث: 58) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے۔ پھر یہ منسوخ کردیا گیا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرنے کے پابند تھے، خواہ آپ وضو ہی سے کیوں نہ ہوں۔ جب آپ پر یہ گراں گزرا تو اس کے بجائے ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:48) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے وقت ایک ہی وضو سے نمازیں ادا کیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا آپ نے جواب دیا:’’ میں نے دانسۃ ایسا کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 642 (277)) حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جوآگے آرہی ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے تازہ وضو کی پابندی خیبر کے موقع پر اٹھا لی گئی تھی اور فتح مکہ اس کے بعد ہوا، ممکن ہے کہ پابندی اٹھنے کے باوجود خیرو برکت کے لیے آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے ہوں جس کی خبر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ ہوسکی، کیونکہ ان کے سوال کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اس کا علم نہ تھا۔ واضح رہے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو صرف رسول الله ﷺ کے لیے تھا، افراد امت کے لیے یہ پابندی نہ تھی۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب بایں الفاظ منقول ہے کہ ہم تمام نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھ لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الطهارة، حدیث 509) وضو پر وضو کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، کیونکہ یہ نور علی نور ہے۔ البتہ علمائے احناف نے استحبابِ وضوءِ جدید کے لیے اختلاف مجلس یا دووضو کے درمیان توسط عبادت کی شرط لگائی ہے۔ نیز وضوء علی وضوء میں بعض سلف کے عمل سے وضو ناقص بھی داخل ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ آپ نے چہرے ، بازو، سراور پاؤں پر ہاتھ پھیراور فرمایا کہ یہ وضو بغیر حدث کا ہے۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث:130) نوٹ:امین اصلاحی نے تدبر حدیث کے لیے محدثین کے اسلوب سے بالا بالا راستہ اختیار کر کے منکرین حدیث کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ انھوں نے اس خود ساختہ تدبر کی آڑ میں احادیث کا مذاق اڑایا ہے اور ان میں شکوک و شبہات کا راستہ ہموار کیا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مذکورہ حدیث پر بھی جو تدبر فرمایا ہے اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے: ’’یہ بات کہ آنحضرت ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں کہہ سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو آنحضرت ﷺ کو وضو کراتے تھے، ان سے زیادہ حضور کے معمولات سے واقف کون ہو سکتا ہے اور یہ روایت نہ جانے کتنے طریقوں سے مروی ہے کہ آپ نے ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھیں۔ فتح مکہ کے روز آپ کا ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھنا معروف ہے۔ غالباً ہوا یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے الفاظ میں روایت کی ہے جس سے عموم نکلتا ہے، لیکن خصوص اس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسے فقرے ہو سکتے ہیں جن سے یہ سمجھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کا عام طریقہ یہی تھا کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے اور یہ روایت صحیح ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ ہر نماز کے لیے چاہے وضو قائم ہو نیا وضو کیا جائے قول سے غلط استشہاد ہے، کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے نقل کرنے میں کچھ بے احتیاطی ہو گئی ہے۔‘‘ (تد برحدیث:306/1) اصلاحی صاحب کی اس عبارت کے ایک ایک لفظ سے احادیث بخاری رحمۃ اللہ علیہ میں تشکیک کی زہریلی بوندیں ٹپک رہی ہیں. تدبر حدیث نامی کتاب میں جگہ جگہ یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے کہ آپ پہلے ہر نماز کے لیے نئے وضو کے پابند تھے، خواہ آپ پہلے وضو ہی سے کیوں نہ ہوں، لیکن جن حضرات کی فطرت میں کجی ہو ان کے سامنے اس طرح کے دلائل بے سود ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
214
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
214
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
214
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
214
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
حدث (بےوضو ہونے)کے بعد وضو لازم ہے لیکن اگر حدث لاحق نہ ہوتو وضو کرنے کا کیا حکم ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسی حالت میں وضو کرنا مستحب تو ہے ضروری نہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بعض حضرات کے نزدیک آیت وضو کے پیش نظر ہر نماز کے لیے وضو کرنا فرض ہے خود حدث لاحق ہویا نہ ہو۔اسی طرح بعض لوگ حدث کے بغیر وضو کرنے کو فعل عبث قراردیتے ہیں کیونکہ نماز کے لیے وضو ایک آلہ ہے خود مقصود نہیں لہٰذا جب تک سابق وضو برقرارہےدوبارہ وضو کرنا فعل عبث اور ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس میں اسراف اور وقت کاضیاع ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس وہم کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنا ہر گز فعل عبث نہیں اور وضو کرنا ضروری بھی نہیں،صرف عمل مستحب ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے۔ (راوی عمرو بن عامر کہتے ہیں) میں نے پوچھا: آپ حضرات (صحابہ) کا کیا معمول تھا؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم میں سے ایک شخص کو اس وقت تک وضو کافی ہوتا تھا جب تک اسے حدث لاحق نہ ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے، اس میں کچھ اضافہ ہے کہ نبی ﷺ وضو سے ہوتے یا بغیر وضو کے ہر حال میں نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے۔ (سنن الترمذي، الطهارة، حدیث: 58) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے۔ پھر یہ منسوخ کردیا گیا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرنے کے پابند تھے، خواہ آپ وضو ہی سے کیوں نہ ہوں۔ جب آپ پر یہ گراں گزرا تو اس کے بجائے ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حديث:48) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے وقت ایک ہی وضو سے نمازیں ادا کیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا آپ نے جواب دیا:’’ میں نے دانسۃ ایسا کیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 642 (277)) حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جوآگے آرہی ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے تازہ وضو کی پابندی خیبر کے موقع پر اٹھا لی گئی تھی اور فتح مکہ اس کے بعد ہوا، ممکن ہے کہ پابندی اٹھنے کے باوجود خیرو برکت کے لیے آپ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے ہوں جس کی خبر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ ہوسکی، کیونکہ ان کے سوال کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اس کا علم نہ تھا۔ واضح رہے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو صرف رسول الله ﷺ کے لیے تھا، افراد امت کے لیے یہ پابندی نہ تھی۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب بایں الفاظ منقول ہے کہ ہم تمام نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھ لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، الطهارة، حدیث 509) وضو پر وضو کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، کیونکہ یہ نور علی نور ہے۔ البتہ علمائے احناف نے استحبابِ وضوءِ جدید کے لیے اختلاف مجلس یا دووضو کے درمیان توسط عبادت کی شرط لگائی ہے۔ نیز وضوء علی وضوء میں بعض سلف کے عمل سے وضو ناقص بھی داخل ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ آپ نے چہرے ، بازو، سراور پاؤں پر ہاتھ پھیراور فرمایا کہ یہ وضو بغیر حدث کا ہے۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث:130) نوٹ:امین اصلاحی نے تدبر حدیث کے لیے محدثین کے اسلوب سے بالا بالا راستہ اختیار کر کے منکرین حدیث کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ انھوں نے اس خود ساختہ تدبر کی آڑ میں احادیث کا مذاق اڑایا ہے اور ان میں شکوک و شبہات کا راستہ ہموار کیا ہے اور اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مذکورہ حدیث پر بھی جو تدبر فرمایا ہے اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے: ’’یہ بات کہ آنحضرت ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں کہہ سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو آنحضرت ﷺ کو وضو کراتے تھے، ان سے زیادہ حضور کے معمولات سے واقف کون ہو سکتا ہے اور یہ روایت نہ جانے کتنے طریقوں سے مروی ہے کہ آپ نے ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں پڑھیں۔ فتح مکہ کے روز آپ کا ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھنا معروف ہے۔ غالباً ہوا یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے الفاظ میں روایت کی ہے جس سے عموم نکلتا ہے، لیکن خصوص اس سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی ایسے فقرے ہو سکتے ہیں جن سے یہ سمجھا جائے کہ آنحضرت ﷺ کا عام طریقہ یہی تھا کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرتے تھے اور یہ روایت صحیح ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ ہر نماز کے لیے چاہے وضو قائم ہو نیا وضو کیا جائے قول سے غلط استشہاد ہے، کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے نقل کرنے میں کچھ بے احتیاطی ہو گئی ہے۔‘‘ (تد برحدیث:306/1) اصلاحی صاحب کی اس عبارت کے ایک ایک لفظ سے احادیث بخاری رحمۃ اللہ علیہ میں تشکیک کی زہریلی بوندیں ٹپک رہی ہیں. تدبر حدیث نامی کتاب میں جگہ جگہ یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے کہ آپ پہلے ہر نماز کے لیے نئے وضو کے پابند تھے، خواہ آپ پہلے وضو ہی سے کیوں نہ ہوں، لیکن جن حضرات کی فطرت میں کجی ہو ان کے سامنے اس طرح کے دلائل بے سود ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عمرو بن عامر کے واسطے سے بیان کیا، کہا میں نے حضرت انس ؓ سے سنا۔ (دوسری سند سے) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے، وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا، وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ ہر نماز کے لیے نیا وضو فرمایا کرتے تھے۔ میں نے کہا تم لوگ کس طرح کرتے تھے، کہنے لگے ہم میں سے ہر ایک کو اس کا وضو اس وقت تک کافی ہوتا، جب تک کوئی وضو توڑنے والی چیز پیش نہ آ جاتی۔ یعنی پیشاب، پاخانہ، یا نیند وغیرہ
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin 'Amir (RA): Anas (RA) said, "The Prophet (ﷺ) used to perform ablution for every prayer." I asked Anas (RA), "what you used to do?' Anas (RA) replied, "We used to pray with the same ablution until we break it with Hadath."