قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ المُزَابَنَةِ وَهِيَ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، وَبَيْعُ الزَّبِيبِ بِالكَرْمِ، وَبَيْعُ العَرَايَا)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَنَسٌ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺعَنِ المُزَابَنَةِ، وَالمُحَاقَلَةِ

2184.  قَالَ سَالِمٌ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ بِالرُّطَبِ أَوْ بِالتَّمْرِ وَلَمْ يُرَخِّصْ فِي غَيْرِهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺنے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے۔ تشریح : اس کو خود امام بخاری  نے آگے چل کر وصل کیا ہے، مزابنہ کے معنی تو معلوم ہو چکے۔ محاقلہ یہ ہے کہ ابھی گیہوں کھیت میں ہو، بالیوں میں اس کا اندازہ کرکے اس کو اترے ہوئے گیہوں کے بدلے میں بیچے۔ یہ بھی منع ہے۔ محاقلہ کی تفسیر میں امام شوکانی فرماتے ہیں۔ قد اختلف فی تفسیرہا فمنم من فسرہا فی الحدیث فقال ہی بیع الحقل بکیل من الطعام و قال ابوعبید ہی بیع الطعام فی سنبلہ و الحقل الحرث و موضع الزرع۔ یعنی محاقلہ کی تفسیرمیں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اس کھیت سے کی ہے جس کی کھڑی کھیتی کو اندازاً مقررہ مقدار کے غلہ سے بیچ دیا جائے۔ ابوعبید نے کہا وہ غلہ کو اس کی بالیوں میں بیچنا ہے اور حقل کا معنی کھیتی اور مقام زراعت کے ہیں۔ یہ بیع محاقلہ ہے جسے شرع محمدی میں منع قرار دیا گیا۔ کیوں کہ اس میں جانبین کو نفع و نقصان کا احتمال قوی ہے۔ مزابنہ کی تفسیر میں حضرت امام مذکور فرماتے ہیں : والمزابنۃ بالزای و الموحدۃ و النون قال فی الفتح ہی مفاعلۃ من الزبن بفتح الزای و سکون الموحدۃ وہو الدفع الشدید و منہ سمیت الحرب الزبون لشدۃ الدفع فیہا و قیل للبیع المخصوص مزابنۃ کان کل واحد من المتبایعین یدفع صاحبہ عن حقہ او لان احدہما اذا وقف مافیہ من الغبن اراد دفع البیع یفسخہ و اراد الاخر دفعہ عن ہذہ الارادۃ بامضاءالبیع و قد فسرت بما فی الحدیث اعنی بیع النخل باوساق من التمر و فسرت بہذا و بیع العنب بالزبیب کما فی الصحیحین الخ ( نیل ) مزابنہ زبن سے مفاعلہ کا مصدر ہے۔ جس کا معنی رفع شدید کے ہیں، اسی لیے لڑائی کا نام بھی زبون رکھا گیا کیوں کہ اس میں شدت سے مدافعت کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیع مخصوص کا نام مزابنہ ہے۔ گویا دینے والا اور لینے والا دونوں میں سے ہر شخص ایک دوسرے کو اس کے حق سے محروم رکھنے کی شدت سے کوشش کرتا ہے یا یہ معنی کہ ان دونوں میں سے جب ایک اس سودے میں غبن سے واقف ہوتا ہے تو وہ اس بیع کو فسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرا بیع کا نفاذ کرکے اسے اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور حدیث کی بھی تفسیر کر چکا ہوں۔ یعنی تر کھجور کو خشک کھجور سے بیچنا اور انگوروں کو منقیٰ سے بیچنا جیسا کہ صحیحین میں ہے۔ عہد جاہلیت میں بیوع کے یہ جملہ مذموم طریقے جاری تھے۔ اور ان میں نفع و نقصان ہر دو کا قوی احتمال ہوتا تھا۔ بعض دفعہ لینے والے کے وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دفعہ وہ اصل پونچی کو بھی گنوا بیٹھتا۔ اسلام نے ان جملہ طریقہ ہائے بیوع کو سختی سے منع فرمایا۔ آج کل ایسے دھوکہ کے طریقوں کی جگہ لاٹری، سٹہ، ریس وغیرہ نے لے لی ہے۔ جو اسلامی احکام کی روشنی میں نہ صرف ناجائز بلکہ سود بیاج کے دائرہ میں داخل ہیں۔ خرید و فروخت میں دھوکہ کرنے والے کے حق میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا من غشنا فلیس منا جو دھوکہ بازی کرنے ولا ہے وہ ہماری امت سے خارج ہے وغیرہ وغیرہ۔ سچے مسلمان تاجر کا فرض ہے کہ امانت، دیانت، صداقت کے ساتھ کاروبار کرے، اس سے اس کو ہر قسم کی برکتیں حاصل ہوں گی اور آخرت میں انبیاءو صدیقین و شہداءو صالحین کا ساتھ نصیب ہوگا۔ جعلنا اللہ منہم آمین یا رب العالمین۔

2184.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے حضرت زید بن ثابت  ؓ نے بتایا کہ اس کےبعد ر سول اللہ ﷺ نے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو تازہ یا خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے کی اجازت بیع عرایا کی صورت میں دی ہے۔ اسکے علاوہ کسی اور صورت میں اجازت نہیں دی۔