Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Selling of Dinar for Dinar on credit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2198.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دینار کو دینار کے عوض اور درہم کو درہم کے عوض (برابر، برابر) فروخت کرنا جائز ہے۔ راوی حدیث نے ان سے عرض کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ تو اس کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ آپ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے سنا ہے یاکتاب اللہ میں دیکھا ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں کہتا کیونکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے حضرت اسامہ ؓ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سود صرف ادھار میں ہوتا ہے۔‘‘
تشریح:
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ ہوتو برابر، برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا موقف تھا کہ دست بدست ایک دینار کو دو دینار کے عوض فروخت کیا جاسکتا ہے۔ان کے نزدیک سود صرف اس صورت میں تھا جب ایک طرف سے ادھا رہو۔ جب حضرت ابو سعید خدری ؓ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا: ابن عباس! تمھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔کب تک لوگوں کو سود کھلاتے رہو گے؟پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کھجور کے بدلے کھجور، گندم کے بدلے گندم، جوکے بدلے جو، سونے کے بدلے سونااور چاندی کے بدلے چاندی فروخت کرنا جائز ہے جب برابر برابر اور دست بدست ہو،جس نے زیادہ وصول کیا اس نے سود لیا‘‘ اس حدیث نبوی کو سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:ابو سعید!اللہ تعالیٰ آپ کو جنت عطا فرمائے ! آپ نے مجھے ایسا کام یاد دلادیا ہے جسے میں فراموش کرچکاتھا۔ میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ بہت سختی سے منع کرتے تھے۔( المستدرك للحاکم:43/2)چونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف دیگر صحیح احادیث کے خلاف تھا، انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے۔ اس کی حسب ذیل تاویلات کی گئی ہیں:٭ اس سود سے زیادہ سنگین کوئی نہیں جو ادھار میں ہے۔٭اس سے مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ مراد ہے کہ وہاں سود صرف ادھار میں ہوتا ہے،اس میں کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2116.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2179
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2179
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2179
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ دینار کو دینار کے عوض اور درہم کو درہم کے عوض (برابر، برابر) فروخت کرنا جائز ہے۔ راوی حدیث نے ان سے عرض کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ تو اس کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ آپ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ سے سنا ہے یاکتاب اللہ میں دیکھا ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں کہتا کیونکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے فرمودات کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے حضرت اسامہ ؓ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سود صرف ادھار میں ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ ہوتو برابر، برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا موقف تھا کہ دست بدست ایک دینار کو دو دینار کے عوض فروخت کیا جاسکتا ہے۔ان کے نزدیک سود صرف اس صورت میں تھا جب ایک طرف سے ادھا رہو۔ جب حضرت ابو سعید خدری ؓ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا: ابن عباس! تمھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔کب تک لوگوں کو سود کھلاتے رہو گے؟پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کھجور کے بدلے کھجور، گندم کے بدلے گندم، جوکے بدلے جو، سونے کے بدلے سونااور چاندی کے بدلے چاندی فروخت کرنا جائز ہے جب برابر برابر اور دست بدست ہو،جس نے زیادہ وصول کیا اس نے سود لیا‘‘ اس حدیث نبوی کو سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:ابو سعید!اللہ تعالیٰ آپ کو جنت عطا فرمائے ! آپ نے مجھے ایسا کام یاد دلادیا ہے جسے میں فراموش کرچکاتھا۔ میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ بہت سختی سے منع کرتے تھے۔( المستدرك للحاکم:43/2)چونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف دیگر صحیح احادیث کے خلاف تھا، انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے۔ اس کی حسب ذیل تاویلات کی گئی ہیں:٭ اس سود سے زیادہ سنگین کوئی نہیں جو ادھار میں ہے۔٭اس سے مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ مراد ہے کہ وہاں سود صرف ادھار میں ہوتا ہے،اس میں کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں ابوصالح زیات نے خبر دی، اور انہوں نے ابوسعید خدری ؓ کو یہ کہتے سنا کہ دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم درہم کے بدلے میں ( بیچا جاسکتا ہے ) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس ؓ تو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ابوسعید ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس ؓ سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم ﷺ سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کامیں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ ( کی احادیث ) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے اسامہ ؓ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( مذکورہ صورتوں میں ) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا مذہب یہ ہے کہ بیاج اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک طرف ادھار ہو۔ اگر نقد ایک درہم دو درہم کے بدلے میں بیچے تو یہ درست ہے۔ ابن عباس ؓ کی دلیل یہ حدیث ہے: لا رِبَا إلَّا في النَّسِيئَةِ. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس فتوی پر جب اعتراضات ہوئے تو انہوں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی کتاب میں میں نے یہ مسئلہ پایا ہے، نہ یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ سے سنا ہے۔ کیو نکہ میں اس زمانہ میں بچہ تھا اور تم جوان تھے۔ رات دن آپ کی صحبت بابرکت میں رہا کرتے تھے۔ قسطلانی ؒ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے فتوے کے خلاف اب اجماع ہو گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ محمول ہے اس پر جب جنس مختلف ہوں۔ جیسے ایک طرف چاندی دوسری طرف سونا، یا ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف جوار ہو ایسی حالت میں کمی بیشی درست ہے۔ بعض نے کہ حدیث لا رِبَا إلَّا في النَّسِيئَةِ. منسوخ ہے مگر صرف احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔ صحیح مسلم میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نہیں ہے بیاج اس بیع میں جو ہاتھوں ہاتھ ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں : و قد روی الحازمي رجوع ابن عباس و استغفارہ عندما سمع عمر بن الخطاب و ابنه عبداللہ یحدثان عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بما یدل علی تحریم ربواالفضل و قال حفظتما من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما لم أحفظ و روی عنه الحازمي أیضاً أنه قال کان ذلك برأي و هذا أبوسعید الخدري یحدثني عن رسول اللہ ﷺ فترکت رأيي إلی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الخیعنی حازمی نے حضرت ابن عباس ؓ کا اس سے رجوع اور استغفار نقل کیا ہے جب انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ اور ان کے بیٹے سے اس بیع کی حرمت میں فرمان رسالت سنا تو افسوس کے طور پر کہا کہ آپ لوگوں نے فرمان رسالت یاد رکھا، لیکن افسوس کہ میں یاد نہ رکھ سکا۔ اور بروایت حازمی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو کہا تھا وہ صرف میری رائے تھے، اور میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے حدیث نبوی سن کر اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔ دیانتداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ سامنے آجائیں تو کسی بھی رائے اور قیاس کو حجت نہ گردانا جائے اور کتاب و سنت کو مقدم رکھا جائے حتی کہ جلیل القدر ائمہ دین کی آراءبھی نصوص صریحہ کے خلاف نظر آئیں تو نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ آراءکے مقابلہ میں کتاب و سنت کو جگہ دی جائے۔ ائمہ اسلام حضرت امام ابوحنیفہ و اما م شافعی و امام مالک وامام احمد بن حنبل ؒ سب کا یہی ارشاد ہے کہ ہمارے فتاوے کو کتاب و سنت پر پیش کرو، موافق ہوں توقبول کرو۔ اگر خلاف نظر آئیں تو کتاب و سنت کو مقدم رکھو۔ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی جلیل القدر کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایسے ارشادات ائمہ کو کئی جگہ نقل فرمایا مگر صد افسوس کہ امت کا کثیر طبقہ وہ ہے جو اپنے اپنے حلقہ ارادت میں جمود کا سختی سے شکار ہے اور وہ اپنے اپنے مزعومہ مسلک کے خلاف قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی بھی صاف صریح حدیث نبوی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ حضرت حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں فرمایا ہے :
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے نہ ایمان باقی نہ اسلام باقی فقط رہ گیا نام اسلام باقی
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salih Az-Zaiyat (RA): I heard Abu Sa'id Al-Khudri(RA) saying, "The selling of a Dinar for a Dinar, and a Dirham for a Dirham (is permissible)." I said to him, "Ibn 'Abbas (RA) does not say the same." Abu Said replied, "I asked Ibn 'Abbas (RA) whether he had heard it from the Prophet (ﷺ) s or seen it in the Holy Book. Ibn 'Abbas (RA) replied, "I do not claim that, and you know Allah's Apostle (ﷺ) better than I, but Usama informed me that the Prophet (ﷺ) had said, 'There is no Riba (in money exchange) except when it is not done from hand to hand (i.e. when there is delay in payment).' "