تشریح:
1۔پھلوں کی پختگی سے پہلے اگر باغ فروخت کیا گیا تو فروخت کرنے والا اس صورت میں نقصان کا ذمہ دار ہوگا جب کوئی آفت آجائے اور باغ تباہ کر دے۔ اگر کوئی نقصان نہ ہوا اور پھل صحیح طور پر تیار ہوگیا تو بیع صحیح ہوگی۔ اس تفصیل کے باوجود ہمارا رجحان یہ ہے کہ پھلوں کی پختگی سے پہلے سودا نہ کیا جائے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کا یہی تقاضا ہے۔خلاف ورزی کرنے کی صورت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔جن احادیث میں ممانعت ہے وہ اسی احتیاط پر محمول ہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کا رجحانِ جواز مشروط ہے کیونکہ جب پھل ضائع ہوگیا اور خریدار کی ادا کردہ قیمت کے مقابلے میں کوئی چیز نہ رہی تو بیچنے والے کا قیمت لینا باطل ہے۔صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر تونے اپنے بھائی کو پھل کا باغ فروخت کیا اور وہ کسی آفت کے آنے سے تباہ ہوگیا تو تیرے لیے اس سے کوئی قیمت وصول کرنا حلال نہیں۔ استحقاق کے بغیر مال لینا کیونکر تیرے لیے جائز ہوسکتا ہے؟‘‘ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:3975(1554))