Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: What is said regarding washing out urine)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور یہ کہ رسول کریم ﷺ نے ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے بچنے کی کوشش نہیں کیا کرتا تھا، آپ ﷺ نے آدمی کے پیشاب کے علاوہ کسی اور کے پیشاب کا ذکر نہیں فرمایا۔
220.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے کر جایا کرتا جس سے آپ استنجا کرتے۔
تشریح:
1۔ رفع حاجت میں بول وبراز سب شامل ہیں، اس طرح پیشاب کا دھونا ثابت ہوا۔ حلال جانوروں کا پیشاب اس سے مستثنیٰ ہے جس کا بیان آگے ہوگا۔ اس طرح یغسل کا لفظ بھی عام ہے کہ محل نجاست کو دھوتے تھے۔ اب خواہ وہ محل بول ہو یا محل براز۔ طہارت کی صورت دھونا ہے، اسی مناسبت سے عنوان ثابت ہوگیا۔ 2۔ شارح بخاری ابن بطال نے لکھاہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےحیوانات کے پیشاب کے متعلق اہل ظاہر کی موافقت کی ہے۔ (شرح ابن بطال:347/1) یہ ابن بطال کا سہو ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اہل ظاہر کا ہم نوا بتلایا ہے، کیونکہ اہل ظاہر کےنزدیک بول الناس کےعلاوہ تمام حیوانات کے پیشاب طاہر ہیں، خواہ ان کا گوشت کھایاجاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ اس موقف کو نہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور نہ اسے کسی موقع پر راجح ہی قراردیا ہے۔ ظاہریہ کی بعض جزئیات سے اتفاق کرنے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ تمام جزئیات کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود مجتہد مطلق ہیں، کسی مجتہد کی جو جزئیات کتاب وسنت کے موافق ہوتی ہیں انھیں اختیار کرلیتے ہیں اور جو کتاب وسنت کے منافی ہوتی ہیں انھیں خاموشی کے ساتھ ترک کردیتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تراجم ہی ان کی ٹھوس اورخاموش ابحاث ہیں۔ ان کی خاص شروط کے مطابق احادیث صحیحہ کی اتباع ہی ان کی دھن ہے۔ ظاہریہ میں تو ابن حزم بھی ہیں، وہ ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب اور گوبر وغیرہ کو نجس قراردیتے ہیں۔ محلی ابن حزم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہر جانور کے بول سے اجتناب ضروری ہے بصورت دیگر تساہل برتنے پر اس کے حق میں عذاب کی وعید ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مجتہد مطلق ہیں اور وہ دلیل کے تابع ہیں۔ ان کا مسلک کتاب وسنت ہے اور کچھ نہیں۔ 3۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جھوٹا آدمی بھی کبھی سچی بات کہہ دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر اصلاحی صاحب کا اس سلسلے میں ایک حکیمانہ فتویٰ ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’میں نےآٹھ سال دیہات میں رہ کر دیکھا ہے کہ سب سے حکیمانہ فتویٰ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے کہا جن جانوروں کا گوشت ہم کھاتے ہیں ان کا پیشاب بھی پاک ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ان جانوروں میں آپ زندگی گزاریں تو یہ ناممکن ہے کہ کبھی آپ کے کپڑے وغیرہ پر ان کے پیشاب کا چھینٹا نہ پڑ جائے، لہذا ان کے پیشاب کو انسان کے پیشاب پر قیاس کرنے سے لوگوں کے لیے غیرمعمولی دشواری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:311/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
217
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
217
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
217
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
217
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سابق باب سے آئندہ پندرہ ابواب تک پیشاب کے متعلق مختلف احکام بیان کیے ہیں،ضمنی طور پر دوسری نجاستوں کا ذکر بھی کیا ہے۔اس مجموعے پرغور کیا جائے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اچھی طرح واضح ہوجاتا ہےکہ انسانی پیشاب کےمتعلق شرعی احکام بہت سخت ہیں اور اس سے اجتناب ہر وقت ضروری ہے کیونکہ یہ نجاست ہروقت انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے،اس لیے انسان بعض اوقات اسے معمولی خیال کرکے اپنے جسم اور بدن کو نجس کرلیتا ہے۔قیامت کے عذاب سے پہلے ایسے لوگوں کو قبر میں سخت اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث سابق(216) کا حوالہ دیا ہے۔مزید فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ اور کسی چیز کا ذکر نہیں فرمایا۔دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس اسلوب سے ان لوگوں کی تردید کرناچاہتے ہیں جو دیگر حیوانات کےپیشاب کو بھی قبول کو بھی بول انسان پر قیاس کرکے انھیں نجس قرار دیتے ہیں۔آئندہ ابواب میں حیوانات کے پیشاب کے متعلق تفصیل پیش کی جائے گی۔واضح رہے قبل ازیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا(بابُ الاستِنجَاءِ بِالمَاءِ) "پانی سے استنجا کرنا۔"وہاں اسی حدیث کو بطوردلیل پیش کیاتھا،البتہ مذکورہ عنوان"پیشاب کو دھونا"اپنے اندرعموم رکھتا ہے کیونکہ استنجا کے علاوہ بھی پیشاب کو دھونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔بعض روایات میں(مِن بَولِه) کے بجائے(مِنَ البَولِ)کے الفاظ ہیں۔اس سے بعض فقہاء نے ہر قسم کے پیشاب کے نجس ہونے پر دلیل لی ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ علامہ ابن بطال کےحوالے سے لکھتے ہیں:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے مرد انسانوں کاپیشاب لیا ہے،تمام حیوانات کا پیشاب مراد نہیں۔جن لوگوں نے اسے عموم پر محمول کرتے ہوئے تمام حیوانات کے پیشاب کو پلید کہا ہے ان کا موقف صحیح نہیں جیسا کہ علامہ خطابی نے الفاظ کے عموم سے اس قسم کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے تمام حیوانات کے پیشاب کونجس قراردیا ہے۔دراصل من البول کاالف لام بولہ کی ضمیر کابدل ہے،اس سے مراد تمام لوگوں کے پیشاب ہیں کیونکہ یہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ انسان کا گوشت حرام ہے ،اس لیے غیر ماکو اللحم حیوانات کا پیشاب بھی نجس ہے،ہاں ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب کی طہارت کے متعلق دوسرے دلائل ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے من البول اسم مفرد ہے جوعموم کا تقاضا نہیں کرتا۔اگر اس کے عموم کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو اسے ان دلائل کی وجہ سے خاص کیاجاسکتا ہے جو ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب کی طہارت کا تقاضا کرتے ہیں۔( فتح الباری 419/1۔)
اور یہ کہ رسول کریم ﷺ نے ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے بچنے کی کوشش نہیں کیا کرتا تھا، آپ ﷺ نے آدمی کے پیشاب کے علاوہ کسی اور کے پیشاب کا ذکر نہیں فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے کر جایا کرتا جس سے آپ استنجا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رفع حاجت میں بول وبراز سب شامل ہیں، اس طرح پیشاب کا دھونا ثابت ہوا۔ حلال جانوروں کا پیشاب اس سے مستثنیٰ ہے جس کا بیان آگے ہوگا۔ اس طرح یغسل کا لفظ بھی عام ہے کہ محل نجاست کو دھوتے تھے۔ اب خواہ وہ محل بول ہو یا محل براز۔ طہارت کی صورت دھونا ہے، اسی مناسبت سے عنوان ثابت ہوگیا۔ 2۔ شارح بخاری ابن بطال نے لکھاہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےحیوانات کے پیشاب کے متعلق اہل ظاہر کی موافقت کی ہے۔ (شرح ابن بطال:347/1) یہ ابن بطال کا سہو ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اہل ظاہر کا ہم نوا بتلایا ہے، کیونکہ اہل ظاہر کےنزدیک بول الناس کےعلاوہ تمام حیوانات کے پیشاب طاہر ہیں، خواہ ان کا گوشت کھایاجاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔ اس موقف کو نہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور نہ اسے کسی موقع پر راجح ہی قراردیا ہے۔ ظاہریہ کی بعض جزئیات سے اتفاق کرنے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ تمام جزئیات کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود مجتہد مطلق ہیں، کسی مجتہد کی جو جزئیات کتاب وسنت کے موافق ہوتی ہیں انھیں اختیار کرلیتے ہیں اور جو کتاب وسنت کے منافی ہوتی ہیں انھیں خاموشی کے ساتھ ترک کردیتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تراجم ہی ان کی ٹھوس اورخاموش ابحاث ہیں۔ ان کی خاص شروط کے مطابق احادیث صحیحہ کی اتباع ہی ان کی دھن ہے۔ ظاہریہ میں تو ابن حزم بھی ہیں، وہ ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب اور گوبر وغیرہ کو نجس قراردیتے ہیں۔ محلی ابن حزم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہر جانور کے بول سے اجتناب ضروری ہے بصورت دیگر تساہل برتنے پر اس کے حق میں عذاب کی وعید ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مجتہد مطلق ہیں اور وہ دلیل کے تابع ہیں۔ ان کا مسلک کتاب وسنت ہے اور کچھ نہیں۔ 3۔ عربی کا مقولہ ہے کہ جھوٹا آدمی بھی کبھی سچی بات کہہ دیتا ہے۔ اس کے پیش نظر اصلاحی صاحب کا اس سلسلے میں ایک حکیمانہ فتویٰ ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’میں نےآٹھ سال دیہات میں رہ کر دیکھا ہے کہ سب سے حکیمانہ فتویٰ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے کہا جن جانوروں کا گوشت ہم کھاتے ہیں ان کا پیشاب بھی پاک ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ان جانوروں میں آپ زندگی گزاریں تو یہ ناممکن ہے کہ کبھی آپ کے کپڑے وغیرہ پر ان کے پیشاب کا چھینٹا نہ پڑ جائے، لہذا ان کے پیشاب کو انسان کے پیشاب پر قیاس کرنے سے لوگوں کے لیے غیرمعمولی دشواری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔‘‘ (تدبرحدیث:311/1)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ نے صاحب قبر کے متعلق فرمایا: "وہ اپنے پیشاب اسے احتیاط نہیں کرتا تھا۔" اور آپ نے انسانوں کے پیشاب کے علاوہ اور کسی چیز کا ذکر نہیں فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھے روح بن القاسم نے بتلایا، کہا مجھ سے عطاء بن ابی میمونہ نے بیان کیا، وہ انس بن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے پاس پانی لاتا۔ آپ اس سے استنجاء فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) went to answer the call of nature, I used to bring water with which he used to clean his private parts.